گذشتہ برس امریکہ میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 7 فی صد اضافہ ہوا۔ ’ایف بی آئی‘ نے پیر کے روز رپورٹ دی ہے کہ مسلمانوں کو ہدف بنانے کے واقعات بڑھ کر 67 فی صد تک پہنچ گئے ہے۔
بیورو کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد کے مطابق، گذشتہ سال نفرت کی نوعیت کے جرائم 5479 سے بڑھ کر 5850 تک پہنچ چکے ہیں۔
برعکس اِس کے، 2014ء میں نفرت کی بنا پر جرائم 154 سے بڑھ کر 257 تک پہنچ گئے تھے۔ سال 2015ء کے دوران مسلمانوں کے خلاف تعصب برتنے کے جرائم کی شرح 4.4 فی صد تھی، جب کہ مذہب کی بنیاد پر جرائم میں 21 فی صد اضافہ ہوا۔
ستمبر، سنہ 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد نفرت کی نوعیت کے مسلمان مخالف جرائم سامنے آئے۔ ایف بی آئی نے سنہ 1992 میں نفرت کی نوعیت کے جرائم کا ریکارڈ رکھنے کی ابتدا کی تھی۔
سال 2016 میں مسلمان مخالف نفرت کی نوعیت کے جرائم میں اضافہ جاری رہا، ایسے میں جب مسلمان وکلا اور ماہرین نے اس کی وجہ ’اسلامو فوبیا‘ میں اضافے کو قرار دیا، جن کا سبب دہشت گرد حملے بنے اور اِن کا ارتکاب امریکہ اور یورپ میں ہوا؛ جب کہ اس معاملے کا ذکر امریکہ میں ہونے والے حالیہ متنازع صدارتی انتخابات کے دوران سنا گیا۔
برائن لیون، سان برنارڈینو میں واقع کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفرت اور انتہا پسندی پر مطالعے کے مرکز کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’امریکہ اور فرانس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے جواب میں مسلمانوں کے خلاف پھیلتے ہوئے تعصب نفرت پر مبنی سلوک انتہائی درجے تک بڑھا، جب کہ اس کا سبب سماجی و سیاسی حلقوں سے بڑھ کر قومی دھارے تک پہنچا، اور یہی وجہ ہے کہ نفرت کی نوعیت کے جرائم میں خاصہ اضافہ دیکھا گیا۔‘‘
منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جن کی انتخابی مہم کے دوران گذشتہ سال سے اسلاموفوبیا اور مسلمان مخالف نفرت کی نوعیت کے جرائم میں اضافہ آنے کا الزام لگایا جاتا ہے، اُنھوں نے اتوار کے روز ایک انٹرویو میں اپنے حامیوں پر زور دیا کہ اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے معاملات کو بند کیا جائے۔ ’سی بی ایس‘ کے پروگرام ’60 منٹس‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ ’’ان کے بارے میں سن کر میں افسردہ ہوتا ہوں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اسے بند کیا جائے۔ اور اگر یہ ضروری ہے تو میں کیمرہ کے سامنے یہ کہنا چاہوں گا، اسے بند کیا جائے‘‘۔