رسائی کے لنکس

ہراسانی کا الزام: جسٹس (ر) جاوید اقبال کو لاپتا افراد کمیشن سے ہٹانے کی سفارش


جسٹس (ر) جاوید اقبال (فائل فوٹو)
جسٹس (ر) جاوید اقبال (فائل فوٹو)

سابق چیئرمین نیب اور لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف ہراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اُنہیں کمیشن کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کر دی ہے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران جسٹس (ر) جاوید اقبال پر ہراسانی کے الزامات عائد کرنے والی طیبہ گل نے مزید کئی انکشافات کیے۔

کمیٹی کا اجلاس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کی سربراہی میں ہوا جس میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بھی طلب کیا گیا تھا، تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔

کمیٹی کے روبرو طیبہ گل کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کے رویے کے خلاف پورٹل پر شکایت کی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنے شوہر کی قریبی عزیزہ کی گمشدگی پر شکایت کے لیے لاپتا افراد کمیشن سے رُجوع کیا تھا، تاہم جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اُنہیں ہراساں کیا۔

طیبہ گل نے دعویٰ کیا کہ پورٹل پر شکایت کے بعد سابق وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور ایک نجی چینل کے مالک طاہر خان نے اُن سے رابطہ کیا اور بلیو ایریا میں ملاقات ہوئی۔

طیبہ گل کا کہنا تھا کہ اُن سے بطور ثبوت ویڈیوز مانگی گئیں، اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ طاہر خان ایک نجی ٹی وی کے مالک ہیں اور یہ ویڈیوز کس مقصد کے لیے استعمال کی گئیں۔ بعدازاں وہ ویڈیوز نیوز ون چینل پر چلائی گئیں۔

طیبہ گل نے الزام عائد کیا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال اُنہیں دن، رات فون کرتے اور اُن کے ساتھ تعاون کا کہتے اور وقتاً فوقتاً بلاتے رہے۔ عدم تعاون پر گرفتار کرا دیا گیا اور مقدمات بنائے گئے۔

خیال رہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال طیبہ گل کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

طیبہ گل کا کہنا تھا کہ روز روز کی ہراسانی سے تنگ کر آ کر اُنہوں نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا۔

چیئرمین نور عالم خان نے طیبہ گل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ جسٹس (ر) جاوید قبال کو جسٹس نہیں کہیں گے کہ کیوں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ جاوید اقبال کو قانون کی الف ب بھی پتا ہے۔

خیال رہے کہ جیو نیوز کے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں مسنگ پرسنز کے لیے کام کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی الزام لگایا تھا کہ جاوید اقبال لاپتاافراد کے اہل خانہ کی خواتین کو ہراساں کرتے رہے ہیں۔

ان کے مطابق جاوید اقبال نے شوہر کی بازیابی کی فریاد لے کر آنے والی خاتون سے کہا کہ "آپ اتنی خوبصورت ہیں آپ کو شوہر کی کیا ضرورت ہے۔"

کمیٹی کے ارکان نے سابق چیئرمین نیب پر عائد الزام کا سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا جس پر سابق چیئرمین نیب کو طلب کرلیا گیا۔

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ وہ وزیرِ اعظم سے سفارش کرتے ہیں کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو لاپتا افراد کے کمیشن سے فی الفور ہٹایا جائے۔ کیوں کہ وہاں لاپتا افراد کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی آتی ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کمیٹی کے نام خط

جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین نیب کو بھی طلب کر رکھا تھا، تاہم اُنہوں نے اپنا خط بھجوایا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ عید کی تعطیلات پر ہیں۔

البتہ سابق چیئرمین نیب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ تعطیلات پر کہاں گئے ہیں۔

چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے اجلاس کے دوران بتایا کہ یہ خواتین کو ہراساں کرنے کا معاملہ ہے جسے ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ چاہتا ہوں کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے وارنٹ گرفتاری جاری کروں۔

اجلاس کے اختتام پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نور عالم نے کہا کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور نیب کو ہدایات دی ہیں کہ ملوث تمام افراد کو عہدوں سے معطل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور معاون خصوصی طاہر اے خان کا نام بھی آیا ہے تو کمیٹی انہیں بھی سننا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جاوید اقبال کو لاپتا افراد کمیشن کی سربراہی سے ہٹانے کی وزیر اعظم کو سفارش کی ہے اور اگر وہ آئندہ اجلاس میں پیش نہیں ہوتے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال 2017 سے 2022 تک چیئرمین نیب رہے جب کہ اس دوران پاکستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے جانے والے کمیشن کے سربراہ کے طور پر بھی وہ کام کرتے رہے اور اب بھی اس عہدے پر فائز ہیں۔

اس سے قبل وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی رہے۔

سن 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی کارروائی میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے پر بننے والے کمیشن کی سربراہی میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کو سونپی گئی تھی۔

اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال گیارہ سال سے لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ کے طور پر چلے آرہے ہیں اور ایسی شکایات تواتر سے آتی رہتی تھیں کہ وہاں متاثرین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون نے مجھے دفتر آکر کہا کہ وہ دوبارہ کمیشن میں نہیں جائیں گی کیونکہ انہیں جاوید اقبال کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 'آپ بہت خوبصورت ہیں تو آپ کو شوہر کی کیا ضرورت ہے۔'

آمنہ مسعود جنجوعہ کہتی ہیں کہ کئی خواتین یہ شکایت کرتی رہی ہیں کہ جاوید اقبال ہمیں اکثر دفتر بلا لیتے ہیں اور تسلیاں دیتے ہیں کہ آپ کے پیارے واپس آجائیں گے۔

ان کے بقول یہ کمیشن اپنا مینڈیٹ کھو چکا ہے ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ جاوید اقبال کی کارگردگی سے مطمئن نہیں اور اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک نیا کمیشن بنایا جانا چاہئے جو کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے سنجیدگی سے کام کرسکے۔

آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ جاوید اقبال جب چیئرمین نیب بنے لاپتا افراد کے تو 139 کیسز تھے جو کہ اب آٹھ ہزار سے بڑھ چکے ہیں اور اگر یہ کمیشن کام کررہا ہوتا تو کیسز کی تعداد اس قدر نہ بڑھتی۔

انہوں نے کہا کہ جاوید اقبال کیس کی سماعت کرتے ہوئے اہل خانہ کو یقین دہانی کرواتے تھے کہ آپ کے خاندان کا فرد آئندہ چار ہفتوں میں واپس آجائے گا جو کہ نہیں ہوتا تھا جس کے بعد کسی کی کبھی دوبارہ سماعت نہیں ہوتی تھی۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کہتی ہیں کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے وفاقی کابینہ کی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی کو سزا دلوانا نہیں چاہتی بلکہ لا پتا افراد کی واپسی چاہتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG