سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ اور پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ یہ دونوں ملک افغانستان میں اپنے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے امریکہ سے ایک بار پھر یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ پاکستان کے فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے خلاف مناسب کارروائی کرے۔
اُنہوں نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کی پشتو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار امریکہ اور پاکستان کو ٹھہرایا تھا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق افغان صدر نے کہا کہ طالبان کو شکست دینے کے لئے امریکہ کی سرکردگی میں افغانستان میں فوجی کارروائیاں شروع کئے 16 برس کا عرصہ بیت چکا ہے اور افغانستان اب بھی انتہائی ابتر حالت میں ہے۔
افغانستان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے متعدد واقعات ہوئے ہیں جن میں فوجی اور عام شہری مارے گئے ہیں۔ ان تمام حملوں کی ذمہ داری طالبان اور داعش نے قبول کی ہے۔
حامد کرزئی نے انٹرویو میں کہا، ’’امریکہ ہم سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر ہم افغانستان سے چلے جائیں گے تو افغانستان کی حالت زیادہ بگڑ جائے گی۔‘‘
اُنہوں نے کہا کہ ہم اس وقت انتہائی خراب صورت حال میں ہیں۔ ہم امن و استحکام کے خواہش مند ہیں۔
کرزئی نے کہا کہ امریکہ اس خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان افغانستان کو ریاستی استحصال کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیں افغانستان میں اس لئے نہیں ہیں کہ وہ انتہاپسندی کا خاتمہ کریں۔
اُنہوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں امریکیوں کا مقصد ہمیں تقسیم کرنا اور کمزور کرنا ہے تاکہ وہ خطے میں اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ عالمی سطح پر امریکہ کے اپنے مقاصد ہیں ۔ امریکہ کو چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے ساتھ ساتھ روس کی طرف سے بھی خطرات کا سامنا ہے۔
اُنہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے اس مؤقف کی تائید کی کہ پاکستان طالبان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اُنہوں نے توقع ظاہر کی کہ امریکہ پاکستان کے فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ عام شہریوں کو نقصان پہنچے یا پھر پاکستان میں جنگ شروع کر دی جائے۔
حامد کرزئی طالبان کی حکومت کے خاتمے سے 2014 تک افغانستان کے صدر رہے اور وہ سبکدوش ہونے کے بعد بھی مختلف فورمز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
کرزئی کے ان الزامات سے ایک روز پہلے بعض امریکی سنیٹرز اور ایوان نمائندگان کے ارکان نے افغانستان میں جاری طویل جنگ کے حوالے سے سوال اٹھائے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ ہر سال افغانستان میں 45 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کر رہا ہے جس کا بیشتر حصہ سیکیورٹی کی مد میں خرچ ہوتا ہے اور محض 78 کروڑ ڈالر کی رقم اقتصادی امداد کی مد میں استعمال ہوتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس سال کے آغاز میں یہ کہتے ہوئے پاکستان کے لئے تقریباً دو ارب ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی کہ پاکستان اُن دہشت گرد گروہوں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے جو پاکستان سے افغانستان میں امریکی اور افغان فوجوں پر حملے کرتے ہیں۔ پاکستان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
امریکی سینیٹ کے بعد منگل کے روز ایوان نمائندگان میں بھی ایک بل پیش کر دیا گیا ہے جس میں پاکستان کے لئے فوجی اور غیر فوجی دونوں طرح کی امداد مکمل طور پر ختم کر دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔