پاکستان اور دنیا کے کئی ترقی پذیر ملکوں کی طرح ہیٹی کو بھی بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کے مسئلے کا سامنا ہے، جہاں ماحولیات کے ماہرین کے مطابق 98 فی صد جنگلات کاٹے جاچکے ہیں ، جس سے موسم پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور بارشوں کی کمی اور خشک سالی کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار گھٹ گئی ہے اوربھوک اور افلاس میں اضافہ ہورہاہے۔
ایڈگرگریفن گدشتہ 80 برس سے ہیٹی کے ایک شہر پٹیٹ گواؤسے باہر ایک پہاڑی کے دامن میں رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں اس علاقے میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ماضی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ بہت سرسبز تھی۔ اتنی سرسبز کہ آپ کوئی گھر نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ سب سبزے میں چھپے ہوتے تھے۔
مگر اب ان پہاڑوں پر ہریالی نہیں ہے۔ تارکین وطن سے متعلق اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم کے ایک انجنیئر روڈی وال مےکا کہنا ہے کہ یہاں کے کاشت کار مونگ پھلی کی کاشت کرنا چاہتے ہیں مگر بارش مٹی بہا کر لے جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لوگ اس لیے مونگ پھلی کی زیادہ کاشت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ مٹی بہہ کر سمندر میں چلی جائے گی۔
جنگلات کی کٹائی ہیٹی کے بڑے مسائل میں سے ہے جس سے خوراک کی پیداوار پر بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ملک کے 98 فیصد سے زیادہ جنگلات کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے کوئلہ بنایا جاتا ہے ، جن سے ہیٹی میں لوگوں کے چولہے روشن ہوتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے بھی بہت سے ملکوں میں بھی جنگلات کی کٹائی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
تاہم ایک گاؤں کے رہائشی ایمانو نوبرٹ کہتے ہیں کہ اب یہ تصور بدل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ماحول کی حفاظت میں درختوں کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن آج ہم جیسے پڑھے لکھے نوجوان درخت کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔
نوبرٹ اور ان کے پڑوسیوں نے اپنے پہاڑوں کی بحالی کے لیے ایک ادارے I-O-M سے مدد مانگی ہے۔ I-O-M کےفرانکوئس فورمائر نے انہیں پہاڑوں کے گرد چھوٹی نہریں کھودنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ بارش کے پانی کے بہاؤ کی رفتار کم کی جا سکے۔
فور مائر کہتے ہیں کہ اور ہر چھوٹی نہر کے شروع میں ہم ایک مخصوص گھاس نما پودا لگا رہے ہیں جس کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں اور وہ مٹی کو جکڑ لیتی ہیں۔ اور اس کے پیچھے ہم مختلف اقسام کے بیس درخت لگا رہے ہیں۔
اس میں پھلوں کے درخت اور ایسے درخت بھی شامل ہوں گے جن سے اچھی عمارتی لکڑی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ درخت مقامی دیہاتیوں کے لیے ایک سرمائے کی طرح ہوں گے۔
ڈیوڈ ڈلگاڈو کہتے ہیں کہ ان درختوں کی اہمیت اور قدر وقیمت کوئلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈلگاڈوامریک امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے لیے کام کرتے ہیں۔ جو اس قسم کے پروجیکٹس کے لیے فنڈز مہیا کرتی ہے۔ یہ درخت مٹی کو پانی کی زیادہ مقدار جذب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ پروجیکٹ نو مہینے پہلے شروع کیا گیا تھا ۔ مگر کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کے مطابق اس کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے درخت لگانے سے روزگار کی فراہمی میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ ہیٹی میں درختوں کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہیٹی میں اس سال جنوری کے تباہ کن زلزلے اور خوارک کی قلت کے مسائل کی وجہ سےمقامی حکومت اور عطیے دینے والے ادارے اب یہ سوچ رہے ہیں کہ درختوں اور پودوں کی کاشت کے ذریعے وہاں کے ماحول ، خوراک اور روزگار کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔