کنور رحمان خاں
صوبہ پنجاب کے سینٹرل اور جنوبی علاقوں میں ان دنوں گنے سے رس نکال کر گڑ بنایا جاتا ہے۔ ان میں پاکپتن، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور اور رحیم یار خان کے اضلاع گڑ بنانے کے لیے خاصے مشہور ہے۔
نیشنل ہائی وے پر لاہور کراچی روڈ پر بہاولپور سے رحیم یار خان سفر کریں تو چنی گوٹھ کے علاقے ميں بہت سے گڑ بیچنے والوں کے ٹھیلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، جو سڑک کے دونوں اطراف آنے جانے والوں کا دل للچاتے ہیں۔
انہی ٹھیلوں میں ایک ٹھیلہ فیصل آباد کے رہائشی محمد الیاس کا ہے۔ جس کے دادا اسی کی دہائی میں فیصل آباد سے چنی گوٹھ آ کر آباد ہو گئے تھے۔
محمد الیاس کے مطابق اس کے باپ دادا گڑ بنا کر بیچتے تھے اور وہ بھی یہی کام کرتا ہے۔
محمد الیاس نے بتایا کہ پہلے مرحلے ميں گنے کا رس نکالا جاتا ہے پھر اس رس کو پکا کر اس کا پیسٹ بنایا جاتا ہے۔ گڑ کے اس پيسٹ ميں ديسي گھي ملايا جاتا ہے اور پھر اس پیسٹ کو ٹھنڈا کر کے گول گول شکل میں بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔
گڑ کا پيسٹ تھوڑا ٹھنڈا ہونے پر اسے ذائقے دينے کے ليے دو حصوں ميں تقسيم کيا جاتا ہے۔ ايک حصے ميں کھويا اور باریک کٹی ہوئی گاجريں ملا دي جاتي ہے، جسے 'گجريلے والا گڑ' کہا جاتا ہے۔
دوسرے حصے ميں مونگ پھلي، کھوپرا، اخروٹ اور بادام ملا ديئے جاتے ہيں، جسے 'ميوہ جات والا گڑ' کہتے ہيں۔
گجريلے والا گڑ ڈيرھ سو روپے في کلو جبکہ ميوے والا گڑ ايک سو اسي روپے في کلو کے حساب سے فروخت کيا جاتا ہے۔ دونوں قسموں کے گڑ بطور تحائف دیئے جاتے ہیں۔
روایتی طور پر چینی کے مقابلے میں گڑ کو انسانی صحت چینی کے مقابلے میں بہتر، اور ہاضمے کے لئے بھي فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ سردیوں ميں چینی کی جگہ گڑ کی چائے اور قہوہ بھی کافی مقبول ہے۔