رسائی کے لنکس

ایران: مسلح افراد کی بازار میں فائرنگ سے 9 افراد ہلاک


ایران میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ فائل فوٹو
ایران میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ فائل فوٹو

ایران کے جنوبی مغربی شہر ایذہ کے ایک بازار میں موٹر سائیکل سوار مسلح افراد کی فائرنگ سے دو بچوں سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

اوسلو میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ ہنگو نے بتایا ہے کہ جمعرات کو ایک شخص بوکان میں ہلاک ہوا جس کے بعد ایران کے مغربی حصے میں شروع ہونے والے مظاہروں میں کم ازکم 10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق وسطی ایران کے شہر اصفہان میں بھی فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایران کے نیم فوجی دستے بسیج سے تعلق رکھنے والے دو اہل کار ہلاک ہوگئے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق دونوں حملوں میں مسلح افراد موٹر سائیکل پر سوار تھے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق حملہ آوروں کی شناخت اور اہداف کے بارے میں تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی ان واقعات کے ایران میں دو ماہ سے جاری احتجاج سے تعلق کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق صوبۂ خوزستان کے شہر ایذہ میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں سیکیورٹی اہل کاروں سمیت 10 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

صوبۂ خوزستان کے گورنر ولی اللہ حیاتی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں ایک بچی اور خاتون بھی شامل ہیں۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ بدھ کو رات گئے ایذہ کے مختلف علاقوں میں کئی درجن مظاہرین مختلف مقامات پر جمع ہوگئے تھے۔ ان مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔

مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے ان پر آنسو گیس کے شیل بھی پھینکے گئے۔دیگر سرکاری ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے بعض دینی درس گاہوں کو بھی نذرِ آتش کردیا تھا۔

ایران میں دو ماہ کے دوران مختلف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کیا گیا ہے جب کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پُرتشدد واقعات بھی پیش آرہے ہیں۔

ایران حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں کی ذمے داری علیحدگی پسندوں اور مذہبی انتہاپسندوں پر عائد کرتا ہے۔ ان واقعات میں گزشتہ ماہ شیراز شہر میں چراغ شاہ مزار پر ہونے والی فائرنگ کا واقعہ بھی شامل ہے جس میں 12 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

رواں برس 16 ستمبر کو 22 سالہ طالبہ مہسا امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس ’گشت ارشاد‘ کی حراست میں موت کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو وقفے وقفے سے تاحال جاری ہے۔ مظاہرین کے مطالبات میں انسانی اور شہری حقوق کے ساتھ اب ایران پر 1979 سے قائم مذہبی حکومت کے خاتمے کے مطالبات بھی شامل ہوگئے ہیں۔

ایذہ میں جاری احتجاج

ایذہ میں ہونے والی فائرنگ کا واقعہ مظاہرین کی جانب سے حکومت کے خلاف کی گئی تین روزہ ہڑتال کے دوسرے روز پیش آیا ہے۔ اس ہڑتال کی کال 2019 کے ملک گیر مظاہروں کی یاد میں دی گئی تھی جن کے دوران سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکت ہوئی تھی۔

ایرانی حکام بغیر کسی ثبوت کے ملک میں پھیلی ہوئی بے چینی کا الزام غیر ملکی عناصر پر عائد کرتے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ دہائیوں سے مذہبی پیشواؤں کی کرپشن اور مطلق العنان حکومت کے جبر سے اکتا چکے ہیں۔

ایران میں حقوقِ انسانی کے ایک گروپ کے مطابق ملک میں دو ماہ سے جاری احتجاجی لہر میں اب 362 افراد ہلاک اور 16033 افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکن ایرانی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر اسلحے کے استعمال اور لاٹھیوں سے تشدد کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ کو قومی سلامتی کے مقدمات کی سماعت کرنے والی انقلابی عدالت نے تہران میں مظاہرہ کرنے والے تین افراد کو سزائے موت سنائی تھی۔

دو ماہ کے دوران حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر چار مظاہرین کو ان عدالتوں سے سزائے موت سنائی جاچکی ہے التبہ تاحال ان میں سے کسی پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG