امریکی ریاست ساؤتھ کیرولینا سے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، لِنڈسی گراہم نے پیر کے روز ایک اجتماع سے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ سنہ 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں پارٹی کے امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ بیرون ملک تنازعات میں امریکی فوجی مداخلت کے سرگرم داعی رہے ہیں۔
اِس طرح، ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے امیدوار بننے کی خواہش رکھنے والے وہ نویں امیدوار، اور چوتھے ریپبلیکن سینیٹر ہیں۔ اُن سے پہلے، ٹیکساس سے ٹیڈ کروز؛ فلوریڈا سے مارکو روبیو اور کینٹکی کے رینڈ پال میدان میں اتر چکے ہیں۔
گراہم نے امیدوار بننے کا اعلان ساؤتھ کیرولینا کے وسطی علاقے میں واقع اپنے آبائی قصبے میں کیا۔ اُنھوں نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ وہ صدر بننا چاہتے ہیں تاکہ ’اُن دشمنوں کو شکست دی جا سکے، جو ہمیں ہلاک کرنے کے خواہاں ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کا ’قدامت پسند اسلامی نظریات کے حامل افراد سے کبھی پُرامن بقائے باہمی کا سلسلہ نہیں ہوسکتا‘۔
گراہم صدر براک اوباما اور امریکی امور خارجہ پر اُن کی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکی رہنما کی پالیسیوں نے ’ہمیں غیرمحفوظ بنایا ہے‘۔
سیاسی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ 59 برس کے گراہم کو ریپبلیکن ووٹروں کی جانب سے کم ہی حمایت حاصل ہے۔ تاہم، اب اتنے زیادہ امیدوار میدان میں کود پڑے ہیں کہ یہی پتا نہیں چلتا کہ اصل امیدوار کون ہوگا۔ گراہم فضائی افواج کے ایک سابق وکیل اور گذشتہ 20 برس کے دوران کانگریس کے رکن اور سینیٹر رہ چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ صدارتی امیدوار بننے کے باقی خواہشمندوں کے مقابلے میں، قومی سلامتی کے شعبے میں اُن کا وسیع تر تجربہ ہے۔
ملک کے اہم معاملات میں وہ ایوان نمائندگان میں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ جماعتوں کے ارکان کے درمیان زیادہ دوطرفہ تعاون کے حامی رہے ہیں۔
گراہم، سنہ 2008 میں ریپبلیکن پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار جان میک کین کے قریبی سیاسی اتحادی رہ چکے ہیں، جنھیں قومی انتخاب میں مسٹر اوباما سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔