پوری دنیا میں جنگلات کی نگرانی کرنے والے پروگرام کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2019ء میں تقریباً 40 لاکھ ہیکٹر کے رقبے پر لگے ہوئے درخت غائب ہوگئے۔ سبزہ زاروں کو یہ اس صدی کی تیسری سب بڑی چوٹ ہے۔
دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی کے بارے میں سیٹلائٹ ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ جہاں ایک مایوس کن صورت حال کا منظر ہے، وہاں ساتھ ہی ماہرین امید کی کرن بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ کہ انڈونیشیا، کولمبیا اور مغربی افریقہ کی حکومتوں نے جنگلوں کی بقا کے لیے جو پالیسی بنائی ہے اس کے سودمند نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ہرے بھرے اور پوری طرح سے پروان چڑھے ہوئے درختوں کی تباہی سے عالم گیر سطح پر ماحول متاثر ہوا ہے اور ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، کرہ ارض پر تقریباً آٹھ فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ گیا ہے۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو جذب کر لیتے ہیں اور اب ان کے نہ ہونے سے یہ گیس فضا میں موجود رہے گی اور دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنے گی۔
ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے سن 2020ء تک جنگلات کی کٹائی کو روکنے کا ایک ہدف مقرر کیا تھا، مگر معاملات الٹی سمت چل پڑے ہیں۔
میری لینڈ یونیورسٹی اور ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ نےسیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر کا تجزیہ کیا اور دیکھا کہ سن 2019ء میں صرف برازیل میں 14 لاکھ ہیکٹر زمین پر لگے ہوئے تناور درخت ختم ہو گئے۔ یعنی، دنیا کے کل جنگلات کا ایک تہائی حصہ ختم ہو گیا۔ برازیل کے بعد سب سے زیادہ درخت کانگو میں کاٹے گئے۔ انسانوں کے ہاتھوں جنگلات کی اس قدر تباہی 2006ء کے بعد ہوئی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے اسسٹنٹ پروفیسر رابرٹ ہیل مائر نے کہا ہے کہ حالیہ ڈیٹا مایوس کن ہے اور ہمیں جنگلات کو بچانے کا ایک طویل سفر طئے کرنا ہوگا۔ حکومتوں کو اس کے لیے پالیسیاں بنانی ہوں گی اور درختوں کی کٹائی کو ہر طرح سے روکنا ہوگا۔
دوسری طرف، انڈونیشیا میں معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ وہاں پچھلے سال تناور درختوں کی کٹائی میں کمی دیکھنے میں آئی۔ وہاں مسلسل تیسرے سال جنگلات کے تحفظ اور ان کی بقا کے لیے کی گئی کوششیش کامیاب نتائج لے کر آئیں۔ اس ملک نے سن 2011ء میں ایسی پالیسی بنائی جس کے تحت درختوں کی کٹائی پر پابندی لگا دی گئی۔ حکومت نےجنگلات میں آتشزدگی کو روکنے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔
کولمبیا میں بھی پچھلے سال جنگلات میں زیادہ کمی نہیں آئی، جب کے اس سے پہلے کے دو برسوں میں کافی بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے۔ کولمبیا کی حکومت نے نیشنل پارکوں میں درختوں کی کٹائی کو روکنے کے سلسلے میں پولیس اور فوج کے دستے تعینات کیے۔
ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کی ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ سن 2019ء کا ڈیٹا توقع کے عین مطابق ہے۔ اگر حکومتیں اچھی پالیسیاں بنائیں اور قوانین پر سختی سے عمل درآمد کریں تو جنگلات کی تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔ اور اگر حکومتیں پابندیوں کو نرم کریں گی تو پھر جنگلات کی کٹائی اسی طرح بڑھتی جائے گی۔
اہلکار کو کرونا وائرس کے حوالے سے بھی تشویش ہے کہ اس کی وجہ سے اس سال بھی جنگلات کے نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ غربت اور قانون پر عمل درآمد کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے جنگلات کا صفایا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ہیلی مائر نے مزید کہا کہ مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ حکومتوں کی توجہ اس اہم مسئلے سے ہٹ نہ جائے۔ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ بعض حکومتیں زراعت کو وسعت دینے کے لیے مزید زمین کے حصول کی غرض سے جنگلات کے تحفظ میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتی ہیں۔