ہٹلر کی ایما پر، دوسری جنگ عظیم کے دوران، مقبوضہ پولینڈ کے یہودی ڈیتھ کیمپ ’آش وِٹس‘ میں ہونے والے قتل عام کے بارے میں اُس وقت کے ایک بک کیپر نے دنیا کو تفیصلات سے آگاہ کیا ہے۔
’آش وِٹس‘ کیمپ کے سابق گارڈ، اوسکر گروننگ نے بدھ کو جرمنی میں مقدمے کی سماعت کے دوسرے دن یہودیوں کے قتل عام کی تفیصلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح جانور لانے والے ٹرکوں میں یہودیوں کو بٹھا کر مقبوضہ پولینڈ کے ڈیتھ کیمپ میں لایا جاتا تھا، اور کس طرح انھیں ننگا کیا گیا اور کس طرح ان میں سے بہت سے گیس چیمبر میں ڈال کر مار دیے گئے۔
اوسکر گروننگ پر مئی 1944ء سے جون 1944ء تک آش وٹس کے ڈیتھ کیمپ میں ہنگری سے لائے گئے سوا چار لاکھ یہودیوں میں سے تین لاکھ یہودیوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
ترانوے سالہ نازی ایس ایس گارڈ کو قصوروار ثابت ہونے پر اس مقدمے میں تین سے 15 برس کی سزا ہو سکتی ہے۔ مقدمے کی سماعت اس سال جولائی تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
جرمن پریس کے مطابق، گروننگ کی ڈیتھ کیمپ میں قیدیوں کے اثاثوں کا حساب کتاب رکھنے کی ذمہ داری تھی، جو اس نے 1942ء سے 1944ء کے دوران انجام دئے۔
ملزم نے منگل کو جرمنی کی عدالت میں ججوں کے سامنے سماعت کے آغاز پر ہی اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیں تھی کہ میں اخلاقی طور پر ذمہ داری قبول کروں۔ اس سماعت کے موقع پر قتل عام میں بچ جانے والوں یا متاثرین کے 70 سے زائد لواحقین بھی موجود تھے۔
گروننگ نے اعتراف کیا کہ وہ گیس کے ذریعے قیدیوں کی ہلاکتوں سے واقف تھا۔ ان میں زیادہ تر یہودی تھے۔ اس نے عدالت کے سامنے معافی طلب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہی فیصلہ کرے کہ وہ اس موقع پر کیا کرسکتا تھا؟
نازیوں کے ہاتھوں جنگی جرائم کے مشتبہ فرد کی حیثیت سے شائد گروننگ آخری شخص ہے جسے 70 برس پہلے ہونے والے یہودیوں کے قتل عام کے الزام میں عدالتی چارہ جوئی کا سامنا ہے۔
نازی ایس ایس وافن کے لئے 1940ء میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے گروننگ نے برملا کہا ہے کہ وہ آش وِٹس میں بک کیپر کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ مدعی کے مطابق، اسے قیدیوں کے اثاثوں کے حساب کتاب رکھنے اور اسے برلن میں حکام کے حوالے کرنے کا ذمہ دیا گیا تھا؛ اور یہ کہ اس نے قبول کیا ہے کہ وہ اس قتل عام کا عینی شاہد ہے۔ لیکن، اس نے خود کے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
گروننگ ان 30 سابق آش وٹس حکام میں سے ایک ہیں جن کے خلاف جرمن حکام نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے شبہ میں تحقیقات کی سفارش کی تھی۔
مقدمے کے شریک فریق 70 کے قریب ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے اور متاثرین کے رشتہ دار اس سماعت کے موقع پر موجود تھے۔
گزشتہ 60 برس کے دوران، جرمن عدالتیں صرف ان لوگوں کے خلاف مقدمے کی سماعت کرتی رہی ہیں جو براہ راست اس طرح کے جنگی جرائم میں ملوث تھے۔ لیکن، 2011ء میں عدالت کے تاریخ ساز حکم نامے کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جائے جو یہودیوں کے قتل عام میں کسی طرح کی معاون رہے تھے۔
اس مقدمے میں سبی بور کیمپ میں بحثیت گارڈ کے خدمات انجام دینے والے جان ڈیم جنک کو پانچ برس قید کی سزا ہوچکی ہے۔
مقبوضہ پولینڈ کے اس آش وٹس کیمپ میں 1940ء سے 1945ء کے دوران یورپ سے یہودیوں کے خاتمے کے منصوبے کے تحت، 13 لاکھ سے زائد قیدی حتمی حل کے لئے لائے گئے تھے؛ ان میں سے 11 لاکھ کو گیس چیمبر میں ڈال کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔