ٹوکیو میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں شرکت کرنے والی جرمنی کی خواتین جمناسٹک ٹیم نے اتوار کے روز جمناسٹک مقابلوں کے دوران فل باڈی سوٹ پہن کر شرکت کی۔
جرمن ٹیم کی ارکان کا یہ فیصلہ خواتین کے اپنا لباس چننے کے حق میں آواز بلند کرنے اور کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین کے لباس میں جنسی کشش پیدا کرنے کے خلاف ردعمل کے طور پر کیا گیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جرمن کھلاڑیوں سارا ووس، پاؤلین شافیر بیٹز، الیزبیتھ سئیٹز اور کم بوئی نے سرخ اور سفید رنگ کے ’یونی ٹارڈ‘ پہن کر مقابلوں میں حصہ لیا۔ یونی ٹارڈ ایک قسم کا ایسا لباس ہے جسے ایک پیس میں پہنا جاتا ہے۔
جرمنی کی ٹیم کے لباس نے ان کے پورے جسم کو ڈھانپا ہوا تھا۔ ان خواتین نے یہ لباس 22 جولائی کے روز اپنی ٹریننگ کے دوران بھی پہنا تھا۔ ان کا ٹریننگ کے دوران کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ کیا وہ مقابلے کے دوران یہ لباس پہن سکتی ہیں۔
21 برس کی سارا ووس نے بتایا کہ ٹیم کے ارکان نے مقابلوں سے پہلے اس بارے میں گفتگو کی اور انہوں نے یہی لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔
رائٹرز کے مطابق انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے لباس سے مطمئن ہو، اور ہم سب کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ جیسا چاہیں لباس پہن سکتی ہیں، چاہے وہ لمبی پوشاک ہو یا مختصر، اس طرح وہ اچھی لگیں گی، اور اچھا محسوس بھی کریں گی ۔‘‘
سارا ووس نے کہا کہ ان کی ٹیم نے رواں سال اپریل میں منعقد ہونے والی یورپئین چیمپئین شپ کے دوران بھی یہی لباس پہنا تھا۔ وہ چاہتی ہیں کہ یہ رجحان مقبول ہو اور وہ دوسروں کے لیے رول ماڈل بننے پر خوش ہیں۔
رائٹرز کے مطابق حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے میں جمناسکٹ کے کھیل کو جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات کا سامنا رہا ہے، جس کے بعد کھلاڑیوں کی حفاظت کے پیش نظر نئے ضابطے متعارف کروائے گئے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق بین الاقوامی مقابلوں میں جسم کو مکمل طور پرڈھانپنے والے لباس کی اجازت ہے لیکن اس سے پہلے ایسا عمل ہمیشہ مذہبی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں خواتین کے لباس سے متعلق خاصی شکایات بھی رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ناروے کی خواتین کی بیچ ہینڈبال ٹیم کی ارکان کو اس وقت جرمانے کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے بکنی باٹم پہن کر کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے شارٹس پہن کر مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان خواتین کا کہنا تھا کہ وہ بکنی باٹم پہن کر کھیلنے سے مطمئین نہیں ہیں اور انہیں اپنا جسم غیر ضروری طور پر سیکشولائیزڈ محسوس ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ رائٹرز کے مطابق پچھلے ہفتے اتوار کے روز انگلش چیمپئین شپ میں دوڑ کے مقابلوں حصہ لیتے ہوئے پیرا اولمپکس کی ورلڈ چیمپئین اولیویا برین کو ان کے لباس کی وجہ سے تعصب انگیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے مطابق وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب انہیں کھیلوں کے مقابلوں کے ایک افسر نے بتایا کہ دوڑ کے دوران انہوں نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ بہت مختصر اور غیر مناسب تھا۔
رائٹرز کے مطابق انہوں نے کہا کہ وہ یہ لباس کئی برسوں سے مقابلوں میں پہن رہی ہیں اور یہ ان مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے خاص طور پر بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ لباس ٹوکیو اولپکس میں بھی پہنیں گی۔