صدر بش اور صدر اوباما کے دومختلف سیاسی ادوار میں چار سال تک امریکہ کے وزیر دفاع رہنےو الے رابرٹ گیٹس نے گذشتہ روز اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔ انہوں نے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے دوران چار سال تک امریکی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کی اور ایک ایسے وقت میں اپنے عہدے سے رخصت ہو ئے ہیں ، جب امریکی فوج کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔
رابرٹ گیٹس نے امریکی محکمہ دفاع کی قیادت 2006ء میں صدر جارج بش کےدور میں ایک ایسے وقت پر سنبھالی تھی ، جب عراق جنگ انتہائی اہم مرحلے میں تھی ۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چار سال تک دو مختلف حکومتوں میں اپنے عہدے پر برقرار رہنا رابرٹ گیٹس کے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر کام کی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے ۔
صدر بش کا ان کے بارے میں کہناہے کہ وہ ایک دیانتدار، صاف گو اور بہترین فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کو محفوظ رکھنے کا چیلنج کسی بھی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہے ۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ہیریٹیج فاونڈیشن کے جیمز کیرافانو کہتے ہیں کہ رابرٹ گیٹس اس لئے کامیاب رہے کہ وہ وہی کرتے تھے، جو ان کے باس ان سے چاہتے تھے ۔
کیرافانو کا کہناہے کہ لوگ اکثر حیران ہوتے ہیں کہ کیسے یہ شخص صدر بش اور صدر اوباما دونوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہے ،جن کے انداز صدارت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ان کی خارجہ پالیسی میں مماثلت ضرور ہے ، لیکن اس کاتاثر ایک دوسرے سے بالکل مختلف قائم کیا گیا ہے ۔ پھر بھی گیٹس دونوں صدور کے لئے مناسب انتخاب ثابت ہوئے ۔
رابرٹ گیٹس نے عراق میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافے کے مرحلے کی نگرانی کی ، جس نے تجزیہ کاروں کے مطابق جنگ کا رخ بدلنے اور امریکی جنگی دستوں کی عراق سے واپسی کا راستہ ہموار کیا تھا ۔
افغانستان میں بھی فوج کی اضافی تعداد بھیجنے کا عمل اور اب اس میں کمی کا اعلان رابرٹ گیٹس کی نگرانی اور مشاورت میں کیا گیا ہے۔ عراق اور افغانستان میں امریکی موجودگی کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہ بھی کی جا سکے ، تو بھی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گیٹس نے اپنے فوجیوں کی حفاظت ، سلامتی اور بہبود کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے ۔
رابرٹ گیٹس نے افغانستان اور عراق کے کئی دوروں میں امریکی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں ۔ وہ اکثر ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی ہوتے دیکھے گئے ۔
رابرٹ گیٹس واضح اور براہ راست بات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں ۔ انہو ں نے اپنے عہدے کے آخری مہینوں میں بھی مبہم بیانات سے گریز کیا ۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ میری رائے میں ، مستقبل کے کسی بھی وزیر دفاع کو ، جو امریکی صدر کو دوبارہ ایشیا ، مشرق وسطی یا افریقہ کے کسی ملک میں اتنی بڑی زمینی فوج بھیجنے کا مشورہ دے گا ، اسے اپنے دماغ کا معائنہ کروانا چاہئے ۔
گیٹس نے نیٹو کے اراکین کو بھی صاف بتا دیا تھا کہ ان کی مالی یا جنگی مدد میں کمی نیٹو اتحاد کو کمزور کرسکتی ہے ۔
جیمز کیرافانو کہتے ہیں کہ سیکرٹری گیٹس نے جاتے جاتے جو کچھ کہا ، بالکل صحیح ہے ۔ نیٹو اتنی مدد نہیں کر رہا ۔ ہم ان کارروائیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نیا سازو سامان خریدنا ہی ہوگا ۔ لیکن گیٹس کے چار سالہ دور میں اس معاملے پر زیادہ نہیں سوچا گیا ۔
رابرٹ گیٹس ایک ایسے وقت میں اپنے عہدے سے رخصت ہو رہے ہیں ، جب امریکی عوام میں جنگ سے بیزاری عروج پر اور امریکی بجٹ کا خسارہ فوج کے بجٹ میں کٹوتیوں کی راہ ہموار کر رہا ہے ۔ اور گیٹس کہتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا میں اپنے مستقبل کے کردار پر غور کرنا ہوگا۔
ان کا کہناتھا کہ کیا ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ خصوصا چین ، ایران اور شمالی کوریا کو کہ امریکہ اب اپنی دکان بند کرکے واپس جا رہا ہے اب ہم اپنے امریکی قلعے میں واپس چلے جائیں گے ۔
یہی ایک ایسا سوال ہے ، جس کا جواب ماہرین کا کہنا ہے کہ اب امریکہ اور اس کے اگلے وزیر دفاع کو تلاش کرنا ہوگا ۔