رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا؛ پی ٹی آئی دور میں بھرتی کیے گئے سوشل میڈیا انفلوائنسرز کا مستقبل غیر یقینی


پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی نگران حکومت نے تحریکِ انصاف کی سابق حکومت کے کئی منصوبوں کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ نگران کابینہ نے پی ٹی آئی دورِ حکومت میں بھرتی کیے گئے پانچ ہزار سوشل میڈیا انفلوائنسرز کی بھی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی نے سن 2013 کے انتخابات کے بعد جب خیبرپختونخوا میں حکومت قائم کی تو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی پالیسی کے تحت مختلف محکموں میں اصلاحاتی پروگرام شروع کیے تھے۔

پاکستان تحریکِ انصاف پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی کارکنوں کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دے کر سوشل میڈیا پر اپنی پذیرائی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ لیکن تحریکِ انصاف ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

نگران حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا انفلوائنسر ز کی جانچ پڑتال کے اعلان کے بعد ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔

'ہمیں تیار چیزیں ملتی تھیں جو ہم اپنے سوشل میڈیا پیجز پر شیئر کر دیتے تھے'

ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا انفلوائنسر حارث خان بھی ان پانچ ہزار انفلوائنسرز میں شامل ہیں جنہیں اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں اُنہیں 25 ہزار ماہوار تنخواہ پر بھرتی کیا گیا تھا۔

حارث کے بقول اُن کی ذمے داریوں میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی، اس وقت کے وزیرِ اعلٰی محمود خان اور کابینہ کے دیگر اراکین کے بیانات کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرنا بھی شامل تھا۔

اُن کے بقول حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے بیانات کو نوٹ کر کے انہیں سوشل میڈیا پر جواب دینے کی ذمے داری بھی اُن کے پاس تھی۔

حارث خان نے مزید بتایا کہ انہیں پشاور کے محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ میں سوشل میڈیا کے ڈائریکٹر کی جانب سے تیار چیزیں ملتی تھی اور وہ انہیں اپنے فیس بک اور یو ٹیوب پر شئیر کر دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان افراد میں غیر جانب دار نوجوان بھی شامل تھے مگر ان سمیت تین ہزار سے زائد افراد مکمل طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ منسلک تھے اور وہ حکومت کی کارکردگی کے علاوہ پارٹی کا مثبت چہرہ بھی پیش کرتے تھے۔

نوکری سے برخاست کیے جانے کے سوال پر محمد حارث کا کہنا تھا کہ اگر ان تمام پانچ ہزار سوشل میڈیا انفلوائنسرز کو ہٹایا گیا تو پھر یہ تمام افرا د متفقہ حکمتِ عملی طے کریں گے۔

سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے حوالے سے نئی پالیسی

نگران صوبائی وزیرِ اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت نے صوبے میں پانچ ہزار سوشل میڈیا انفلوائنسرز بھرتی کیے جن کی تنخواہ کی مد میں ماہانہ 15 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔

اُن کے بقول یہ تمام افراد پی ٹی آئی کے کارکن ہیں جنہیں گھر بیٹھے ہر ماہ 20 سے 25 ہزار تنخواہ مل رہی تھی۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا انفلوائنسر ز کے طریقۂ کار کو بھی ختم کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں کابینہ کے اجلاس میں تفصیلات پیش کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ صوبائی محکموں میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کی چھان بین کرے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے رپورٹ ملنے کے بعد غیر قانونی طور پر بھرتی کیے جانے والے افراد کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ اطلاعات میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے ایک علیحدہ سب ڈائریکٹوریٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر نے رابطے پر اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف

خیبرپختونخوا کے لیے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے انچارج اکرام کھٹانہ کا کہنا ہے کہ نگران کابینہ نے جن سوشل میڈیا انفلوائنسرز کا ذکر کیا ہے وہ صرف محکمہ اطلاعات نہیں بلکہ دیگر محکموں میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان افراد کا کام تحریکِ انصاف نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کو اُجاگر کرنا ہے۔

اکرام کھٹانہ کا کہنا تھا کہ ان تمام پانچ ہزار سوشل میڈیا انفلوائنسرز کو ایک سال کے لیے کانٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا اور ان کی بھرتی اخباری اشتہار، ٹیسٹ اور انٹرویو کے ذریعے کی گئی تھی۔

سابق وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان
سابق وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان

پی ٹی آئی حکومت کے دیگر فیصلے جو واپس لیے گئے ہیں؟

صوبائی وزیر نے میڈیا کو بتایا کہ صوبے کے اسپتالوں میں ایم ٹی آئی پالیسی بورڈ بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ نئے بورڈز کے قیام کے لیے رپورٹ وزیرِ اعلٰی کو بھجوا دی گئی ہے۔

جمعے کو نگران کابینہ کے اجلاس کے بعد صوبے کے 10 بڑے اسپتالوں کے خود مختار بورڈ ختم کر کے پرانی طرز کے میڈیکل سپریڈینٹ اور چیف ایگزیکٹو کے زیر انتظام نظام کو بحال کر دیا گیا۔

پی ٹی آئی حکومت نے محکمۂ صحت کے زیرِ انتظام صوبے کے 10 بڑے اسپتالوں میں خود مختار بورڈ آف گورنر بنائے تھے۔ اس اقدام کے لیے صوبائی اسمبلی سے میڈیکل ٹیچنگ اداروں کے لیے ایک ترمیمی بل بھی منظور کیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG