رسائی کے لنکس

عمر قید کی سزا کے بعد یاسین ملک کے پاس اب کیا قانونی آپشنز ہیں؟


بھارتی عدالت کی جانب سے علیحدگی پسند کشمیری اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ یاسین ملک کو ٹیرر فنانسنگ کے الزام میں عمر قید کی سزا سنانے پر مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب سے ردِعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

یاسین ملک کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل کے ہائی سیکیورٹی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یاسین ملک دورانِ ٹرائل بھی گزشتہ تین برس سے تہاڑ جیل میں ہی قید تھے۔ حکام نے بدھ کو بلائی گئی ایک میٹنگ میں اُن کی سیکیورٹی مزید سخت کرنے اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے 24 گھنٹے نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارتی وزاتِ داخلہ کے ایک حکم کے مطابق یاسین ملک کو دیگر قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جائے گا۔

سرینگر میں ہڑتال اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری

یاسین ملک کی گرفتاری پر بھارتی کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جزوی ہڑتال کی جا رہی ہے اور سزا سنائے جانے کے دوسرے روز بھی بیشتر دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔

سرینگر کے علاقے مائسیمہ میں سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے بعد پولیس نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کئی گھروں پر چھاپے مار کر 10 افراد کو گرفتار کر لیا۔ ان افراد پر سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

مائسیمہ میں یاسین ملک کا آبائی گھر اور جے کے ایل ایف کا صدر دفتر واقع ہیں۔ اس سے پہلے پولیس نے سرینگر اور وادیٔ کشمیر کے دوسرے حصوں سے تقریباً دو درجن افراد کو حراست میں لیا تھا۔

بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی نئی دہلی میں قائم خصوصی عدالت نے 19 مئی کو یاسین ملک اور دیگر 15 ملزمان کو 2017 میں دہشت گردی کی فنڈنگ کے حوالے سے درج مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔

بدھ کو عدالت نے سزا کے تعین کے لیے سماعت شروع کی تھی۔ این آئی اے نے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی استدعا کی تھی۔البتہ عدالت نے یاسین ملک کو دو بار عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ان کے وکیل کے مطابق یاسین ملک سزا کے خلاف اپیل کرسکیں گے۔

اس کے علاوہ انہیں تین دیگر الزامات میں پانچ پانچ سال اور پانچ اور الزامات میں قانون کی مختلف دفعات کے تحت دس دس سال قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ تاہم یہ ساری سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی۔

یاسین ملک کی عدم تشدد پر مبنی سیاست کرنے کا دعویٰ مسترد

خصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ نے یاسین ملک کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ان کی قیادت میں جے کے ایل ایف نے 1994 میں کشمیر کی آزادی کے لیے بندوق کا استعمال ترک کیا تھا جس کے بعد انہوں نے مہاتما گاندھی کے اہنسا یعنی عدم تشدد کا اصول اپنایا۔

جج نےکہا کہ اس عرصے کے دوران وادیٔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات پیش آتے رہے لیکن یاسین ملک نے نہ تو ان واقعات کی مذمت کی اور نہ وہ احتجاجی مظاہروں کی کال دینے سے باز آئے۔

تاہم جج نے کہا کہ یاسین ملک عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں مقررہ مدت کے اندر اندر اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

یاسین ملک کے لیے آپشنز محدود

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یاسین ملک نے خصوصی عدالت میں ان پر لگائے گئے الزامات کو واقعی تسلیم کیا تھا تو وہ ضابطہ فوج داری کی دفعہ 375 کے تحت صرف انہیں دی گئی سزا میں کمی کے لیے عدالتِ عالیہ میں درخواست دے سکتے ہیں لیکن انہیں مجرم قرار دینے کو چیلنج نہیں کرسکتے۔

یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور جے کے ایل ایف نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ یاسین ملک نے عدالت میں جرم قبول نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھاکہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، بالکل اُسی طرح جس طرح بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کے لیے انگریزوں سسے لڑائی کی تھی۔

یاسین ملک میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کے ہمراہ (فائل فوٹو)
یاسین ملک میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کے ہمراہ (فائل فوٹو)

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ا گرچہ یاسین ملک نے 25 مئی کو عدالت میں بیان دیتے ہوئے ان پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن عدالت کے ریکارڑ میں ان کے ایک مبینہ سابقہ بیان کی روشنی میں یہ بات درج ہے کہ انہوں نے اُن پر لگائے گئے تمام الزامات کو تسلیم کیا تھا۔

ان ماہرین کے مطابق یاسین ملک اب ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے بعد یہ مؤقف اختیار کرسکتے ہیں کہ خصوصی عدالت نے انہیں جو سزائیں سنائی ہیں وہ غیر متناسب ہیں اس لیے ان میں کمی کی جانی چاہیے۔

معروف قانونی ماہر امتیاز حسین ایڈووکیٹ کے مطابق یاسین ملک کو تمام قانونی اختیارات کو بروئے کار لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مجموعہ ضابطہ فوج داری قانون کی دفعہ 401 کے تحت وہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

جے کے ایل ایف کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اپیل دائر کرنے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے عنقریب قانونی ماہرین سے صلاح مشورہ کرے گی۔

بھارتی کشمیر: 'جس کو چاہتے ہیں پکڑ لیتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:12 0:00

مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی کہتے ہیں کہ "صورتِ حال جو بھی ہو یاسین ملک کو خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف لڑنے کے لیے تمام قانونی مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔"

سیاسی جماعتوں کا ردِِ عمل

کشمیر کی بھارت نواز علاقائی جماعتوں اور بھارت کی بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) نے یاسین ملک کو عمر قید کی سزا دینے کے عدالتی فیصلے کو افسوس ناک قراردیا اور کہا کہ اس سے قیامِ امن کی جاری کوششوں کو دھچکہ لگے گا۔

اتحاد کے ایک ترجمان نے کہا "ہمیں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اس سے اس خطے میں پائی جانے والی بے یقینی میں مزید اضافہ ہو گا۔

ترجمان نے الزام لگایا کہ "این آئی اے کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے انصاف نہیں کیا ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس (میرواعظ عمر دھڑے) نے عدالتی فیصلے کی پرزور مذمت کی ہے۔

حریت کانفرنس کے مطابق یاسین ملک تنازع کشمیر کے حل کے لیے کشمیریوں، بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کے داعی رہے ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ردِ عمل میں کہا "سزائیں ماضی میں بھی دی گئیں اور لوگوں کو تختۂ دارپر بھی لٹکایا گیا لیکن ایسے اقدامات سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ۔

وائس آف امریکہ نے سر ینگر میں یاسین ملک کی والدہ اور بہنوں سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے نےانہیں بے حد دکھی کردیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا اور کہا "ہم جب یاسین صاحب سے جیل میں پچھلی بار ملی تھیں تو انہوں نے تاکید کی تھی کہ ہم اس معاملےمیں میڈیا کے ساتھ بات نہ کریں کیونکہ یہ میرا معاملہ ہے میں اس سے خود ہی نمٹ لوں گا۔

پاکستان کی مذمت

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت متعدد پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔

ایک بیان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بھارت یاسین ملک کو جسمانی طور پر تو قید کر سکتا ہے، لیکن آزادی کے اس تصور کو قید نہیں کر سکتا جس کی وہ علامت ہیں۔

بھارت میں حکمراں جماعت کا عدالتی فیصلے کا خیر مقدم

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے گو کہ اس کا کہنا ہے کہ اس کے بقول عوام بالخصوص ان لوگوں کو جن کے پیاروں کو یاسین ملک یا ان کی ایما پر جے کے ایل ایف نے موت کے گھات اتاردیا توقع تھی کہ انہیں موت کی سزا سنائی جائے گی۔

بی جے پی کے لیڈروں ڈاکٹر نرمل سنگھ اور کویندر گپتا نے ایک جیسے بیانات میں کہا کہ "لوگوں کو یہ امید تھی کہ یاسین ملک کومعصوم لوگوں کو قتل کرنے یا کرانے پر سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ وہ عدالت کی طرف سے اس دہشت گرد کو عمر قید کی سزا سنائے جانے پر مایوس ہیں ۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG