بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے لئے اٹھنے والا سیاسی طوفان فی الحال تھم سا گیا ہے جس کا سہرا سینیٹ کے چئیر مین محمد صادق سنجرانی کے سر جاتا ہے۔
اتوار کی رات سینیٹ کے چئیرمین اور صوبے میں حکومت کی تبدیلی کے لئے کوشاں بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے ملاقات کے بعد مشترکہ طور پر میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماﺅں کے در میان اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور اب سب مل کر صوبے میں پارٹی کو منظم کریں گے۔
چیئرمین سینیٹ سینجرانی کا کہنا تھا کہ اسپیکر صاحب چونکہ ایک سرگرم سیاسی راہنما ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں پارٹی (بلوچستان عوامی پارٹی) سرگرم رہے۔ کیونکہ پارٹی بنانے میں انہوں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ بی اے پی کے سربراہ اور وزیر اعلیٰ کو قدوس بزنجو کے تحفظات سے آگاہ کر دیا گیا ہے جنہوں نے اسپیکر کی شکایات کا ازالہ کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر کے عہدے سے الگ ہو کر دوبارہ سرگرم سیاسی کردار ادا کرنا چاہتا تھا مگر وزیر اعلیٰ اور سینیٹ کے چئیرمین کی کو ششوں سے میرے خدشات دور ہو گئے اور اب میں پارٹی کی قیادت کے احکامات کے مطابق اپنا کام جاری رکھوں گا۔‘
اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کے مستعفی ہونے کی خبروں سے پہلے بلوچستان کی صوبائی کابینہ کے ایک وزیر سردار سرفراز ڈومکی بھی مستعفی ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنا وزن بلوچستان عوامی پارٹی میں عبدالقدوس بزنجو کے پلڑے میں ڈال دیا تھا لیکن سینیٹ کے چیئیرمین نے انہیں بھی منا کر بظاہر جام کمال خان حکومت کو بچا لیا ہے۔
صوبائی مخلوط حکومت کے اتحادی پارٹیوں کے راہنماﺅں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی رواں سال مارچ کے دوران جن قوتوں کی پس پردہ حمایت سے تشکیل پائی تھی، جام کمال خان کی حکومت اب بھی ان کی آشیرباد حاصل ہے اور جب تک وہ قوتیں تبدیلی نہ چاہیں اس وقت تک قدوس بزنجو یا پارٹی کے کسی دوسرے راہنما کی کاوشیں بارآور ثابت نہیں ہوں گی۔
بلوچستان میں جاری سیاسی سرگرمیوں پر سیاسی تجزیہ نگار جعفر خان تر ین کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیاسی تبدیلی حزب اختلاف کی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف سابق رکن قومی اسمبلی اور معمر سیاسی راہنما ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ نے بلوچستان کی سطح پر ایک بار پھر اپنی نئی سیاسی جماعت ’نیشنل ڈیموکر ٹیک پارٹی‘ کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سیاست سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے بی ایس او کے راہنماﺅں کے ساتھ مل کر پہلے بلوچستان یوتھ موﺅمنٹ تشکیل دی جسے بعد میں بلوچستان نیشنل موﺅمنٹ میں ضم کر دیا گیا۔ اس کے بعد جب ڈاکٹر حئی بلوچ کو صدارت سے ہٹا دیا گیا تو ان کی پارٹی حاصل خان بزنجو کی نیشنل پارٹی میں ضم ہو گئی۔ لیکن نیشنل پارٹی کی پالیسیوں پر ڈاکٹر حئی بلوچ کافی تنقید کرتے رہتے تھے اس لیے آخرکار وہ انہوں نے بزنجو سے الگ ہو کر این ڈی پی قائم کر دی ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ کہنا مشکل ہو گا کہ یہ ڈاکٹر حئیبلوچ کی آخری پارٹی ثابت ہو گی۔