واشنگٹن —
جمہوریہ وسطی افریقہ میں عیسائی اور مسلمان ملیشیاؤں کے درمیان گزشتہ دو روز سے جاری جھڑپوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق ملک میں موجود غیر ملکی فوجی دستے تشدد کے تازہ واقعات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں تاحال اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جھڑپوں کا آغاز دارالحکومت بنگوئی سے 380 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع قصبے بمبری سے ہوا جہاں پیر کی صبح عیسائی ملیشیا نے مسلمانوں کے ایک گاؤں پر حملہ کیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق حملے کے بعد مشتعل مسلمان نوجوانوں نے جوابی کارروائیاں شروع کردیں اور فسادات نے پورے قصبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایک عینی شاہد نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ عیسائی ملیشیا کے حملے میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں پانچ بچے اور چھ خواتین بھی شامل تھیں۔
ایجنسی نے مقامی ڈاکٹر کے حوالے سے کہا ہے کہ علاقے کے اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں گولیوں اور چاقووں کے زخم آئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ قصبہ اس سرحدی پٹی پر واقع ہے جو مسلمان اور عیسائی اکثریتی علاقوں کو الگ کرتی ہے۔
خیال رہے کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں گزشتہ ایک سال سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جاری جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔
فسادات کے نتیجے میں کل 46 لاکھ آبادی کے اس ملک کے لگ بھگ 10 لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا ہے اور ملک کی بیشتر مسلمان آبادی سوڈان اور چاڈ سے منسلک ملک کے شمالی علاقوں کی طرح ہجرت کر گئی ہے۔
وسطی افریقہ کے اس ملک میں گزشتہ سال مسلمان باغیوں نے مرکزی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد گزشتہ سال کے اختتام پر عیسائی ملیشیاؤں نے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کردی تھیں جوتاحال جاری ہیں۔
ملک میں تعینات فرانسیسی امن رضاکاروں کے دستے کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بمبری میں صورتِ حال اس وقت خراب ہوئی جب وہاں تعینات امن فوج کا دستہ ابتدائی حملے کی تحقیقات کی غرض سے نواحی علاقے کی طرح روانہ ہوا۔
امدادی ادارے 'ریڈ کراس' کے ایک مقامی عہدیدار نے کہا ہے کہ قصبے کے بیشتر علاقوں اور نواحی دیہات میں لڑائی اور حملے اب بھی جاری ہیں جس کے باعث امدادی اہلکاروں کو لاشیں اکٹھی کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے.
حکام کے مطابق ملک میں موجود غیر ملکی فوجی دستے تشدد کے تازہ واقعات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں تاحال اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جھڑپوں کا آغاز دارالحکومت بنگوئی سے 380 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع قصبے بمبری سے ہوا جہاں پیر کی صبح عیسائی ملیشیا نے مسلمانوں کے ایک گاؤں پر حملہ کیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق حملے کے بعد مشتعل مسلمان نوجوانوں نے جوابی کارروائیاں شروع کردیں اور فسادات نے پورے قصبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایک عینی شاہد نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ عیسائی ملیشیا کے حملے میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں پانچ بچے اور چھ خواتین بھی شامل تھیں۔
ایجنسی نے مقامی ڈاکٹر کے حوالے سے کہا ہے کہ علاقے کے اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں گولیوں اور چاقووں کے زخم آئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ قصبہ اس سرحدی پٹی پر واقع ہے جو مسلمان اور عیسائی اکثریتی علاقوں کو الگ کرتی ہے۔
خیال رہے کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں گزشتہ ایک سال سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جاری جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔
فسادات کے نتیجے میں کل 46 لاکھ آبادی کے اس ملک کے لگ بھگ 10 لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا ہے اور ملک کی بیشتر مسلمان آبادی سوڈان اور چاڈ سے منسلک ملک کے شمالی علاقوں کی طرح ہجرت کر گئی ہے۔
وسطی افریقہ کے اس ملک میں گزشتہ سال مسلمان باغیوں نے مرکزی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد گزشتہ سال کے اختتام پر عیسائی ملیشیاؤں نے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کردی تھیں جوتاحال جاری ہیں۔
ملک میں تعینات فرانسیسی امن رضاکاروں کے دستے کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بمبری میں صورتِ حال اس وقت خراب ہوئی جب وہاں تعینات امن فوج کا دستہ ابتدائی حملے کی تحقیقات کی غرض سے نواحی علاقے کی طرح روانہ ہوا۔
امدادی ادارے 'ریڈ کراس' کے ایک مقامی عہدیدار نے کہا ہے کہ قصبے کے بیشتر علاقوں اور نواحی دیہات میں لڑائی اور حملے اب بھی جاری ہیں جس کے باعث امدادی اہلکاروں کو لاشیں اکٹھی کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے.