رسائی کے لنکس

کشمیر: پھلوں کے تاجروں پر نامعلوم افراد کے حملے، مقامی کسان پریشان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ دنوں کچھ نامعلوم مسلح افراد نے فروٹ اور میوہ جات کے بیوپاریوں پر حملے کیے، جس کے بعد اس صنعت سے وابستہ افراد خوف کا شکار ہیں۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے شوپیاں میں بُدھ کو کچھ مسلح افراد نے بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو بیوپاریوں چرن جیت سنگھ اور سنجیو کمار اور میوہ جات کے باغوں میں کام کرنے والے تقریباً دو درجن غیر کشمیری مزدوروں کو ایک جگہ جمع ہونے کے لیے کہا۔

مسلح افراد نے دونوں تاجروں کو گولیاں مار دیں اور مزدوروں کو رہا کردیا۔ گولیاں لگنے کے بعد چرن جیت سنگھ دم توڑ گئے جب کہ سنجیو کمار اس وقت سرینگر کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق مسلح افراد نے اُس ٹرک کو بھی نذرِ آتش کردیا جس میں سیبوں سے بھری وہ پیٹیاں لادی جارہی تھیں جو ان دو تاجروں نے مقامی کسانوں سے خریدی تھیں اور انہیں وادی سے باہر لے جانے والے تھے۔

اس سے قبل بھی پھلوں اور میوہ جات کے تاجروں کو نامعلوم مسلح افراد نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پیر کو شوپیان کے سندھو علاقے میں ایک ٹرک ڈرائیور شریف خان کو ہلاک کیا گیا تھا جس کا تعلق بھارتی ریاست راجستھان سے تھا۔ مسلح افراد نے اُس کے ٹرک کو بھی جلا دیا تھا۔

پھلوں کے تاجروں اور ٹرک ڈرائیوروں کو نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد سے علاقے میں خوف کی فضا قائم ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے فروٹ اور میوہ جات کے تاجر بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مقیم ہیں۔ لیکن ان حملوں کے بعد کئی تاجر کشمیر چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے ہیں۔

جو بیوپاری وادی میں موجود ہیں انہیں پولیس اور حفاظتی دستے محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ دوسری جانب میوہ جات اور فروٹ اگانے والے مقامی کسان بھی سہمے ہوئے اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔

کشمیری سیب کی خاص قسم 'امبری' جو وادی اور وادی کے باہر لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
کشمیری سیب کی خاص قسم 'امبری' جو وادی اور وادی کے باہر لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔

حملے کون کر رہا ہے؟

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے ان واقعات کا ذمہ دار ریاست میں سرگرم ’عسکریت پسندوں‘ کو ٹھیرایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان عناصر کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں پوسٹ پیڈ موبائل فون سروسز کی بحالی کے بعد علیحدگی پسندوں کے لیے اطلاعات حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ان کے بقول علیحدگی پسند اپنی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے اس سہولت کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا ہے کہ ان افسوس ناک اور بہیمانہ واقعات میں ملوث افراد کی شناخت کرلی گئی ہے جنہیں بہت جلد اپنے انجام تک پہنچایا جائے گا۔

شوپیان اور پلوامہ میں پولیس نے پوسٹرز کے ذریعے شہریوں سے دو مقامی علیحدگی پسندوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے تعاون کی اپیل کی ہے۔ پولیس نے ان واقعات کا ذمہ دار ان دو علیحدگی پسندوں کو ٹھیرایا ہے۔

دو مہینوں کی بندش کے بعد کشمیر میں موبائل فون سروسز چند روز قبل ہی کھولی گئی ہیں۔ (فائل فوٹو)
دو مہینوں کی بندش کے بعد کشمیر میں موبائل فون سروسز چند روز قبل ہی کھولی گئی ہیں۔ (فائل فوٹو)

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں کسان پریشان

شوپیان اور پُلوامہ میں تشدد کے واقعات کے بعد حکام نے سیب کے غیر مقامی تاجروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ کشمیر پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہم میوہ جات کے بیوپاریوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔

شوپیان کے ڈپٹی کمشنر محمد یاسین چوہدری نے بتایا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ایسے مراکز کا انتخاب کیا ہے جہاں کسان اپنے پھل غیر مقامی تاجروں کو فروخت کے لیے لا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقامات بالکل محفوظ ہیں جہاں غیر مقامی بیوپاری بغیر کسی خوف اور خطرے کے رہ سکتے ہیں۔

لیکن کئی کسانوں نے بتایا ہے کہ حکومت کی طرف سے ان مقررہ مقامات تک پھلوں کو پہنچانا موجودہ حالات میں آسان کام نہیں ہے۔

شوپیان کے گاؤں بٹہ گنڈ میں ایک باغ کے مالک احسان الحق ماگرے نے بتایا ہے کہ باغوں کے مالک، کسان اور مزدوروں سمیت تمام لوگ سہمے ہوئے ہیں اور پھلوں کو انتظامیہ کے مقرر کردہ پوائنٹس تک لے جانا خطرے سے خالی نہیں سمجھتے۔

اس استفسار پر کہ بیوپاریوں، ٹرک ڈرائیوروں اور مزدوروں پر حملے کون کر رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ حملہ آور نقاب پوش تھے اور اردو میں بات کر رہے تھے۔

ان کے بقول اس علاقے میں ’مجاہدین‘ کا آنا جانا رہتا ہے لیکن انہوں نے ہمیں کبھی بھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم حیران ہیں کہ تاجروں اور ٹرک ڈرائیوروں کو کون نشانہ بنا رہا ہے۔

میوہ جات کی صنعت سے وابستہ وادئ کشمیر کے ضلع شوپیان کے رہائشی اشرف حماد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ پُرتشدد واقعات کے بعد پورے علاقے میں اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

ان کے بقول سیب کی فصل اُگانے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پھل فروخت کے لیے باہر کی منڈیوں میں کیسے پہنچائیں۔

انہوں نے کہا کہ ضلع شوپیان میں فروٹ کا سیزن عروج پر ہے لیکن پھل اُگانے والے انتہائی پریشان ہیں۔

اشرف حماد نے کہا کہ اگر ایسی صورتِ حال مزید کچھ دنوں تک برقرار رہتی ہے تو میوہ جات کے سڑنے کی نوبت آ جائے گی اور کسانوں اور باغ مالکان کو اربوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔

کشمیر میں عائد پابندیوں کی وجہ سے مقامی تاجر بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ (فائل فوٹو)
کشمیر میں عائد پابندیوں کی وجہ سے مقامی تاجر بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ (فائل فوٹو)

مارکیٹ انٹرونشن اسکیم ناکام

کشمیر کی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ کے وسط میں ایک ’مارکیٹ انٹرونشن اسکیم‘ کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد عہدے داروں کے مطابق کسانوں اور باغ مالکان کو اپنا مال اونے پونے داموں پر بیچنے سے بچانا تھا۔

لیکن اکثر کسانوں اور باغ مالکان نے اس اسکیم سے استفادہ حاصل نہیں کیا کیوں کہ ان کے بقول حکام کی طرف سے مقرر کردہ شرائط ان کے لیے پریشانیوں اور الجھنوں کا باعث بن سکتی تھیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG