رسائی کے لنکس

بھارت کا فرانس سے رافیل معاہدہ، مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے فرانسیسی جج مقرر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت اور فرانس کے درمیان ہونے والے رافیل جنگی طیاروں کے سودے میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے فرانس میں ایک جج کا تقرر کیا گیا ہے۔

فرانس کی پبلک پراسیکیوشن سروسز کی فنانشل کرائم برانچ (پی این ایف) نے جمعے کے روز کہا ہے کہ ایک فرانسیسی جج کو بد عنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

بھارت اور فرانس کے درمیان 36 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ 2016 میں ہوا تھا۔ 59 ہزار کروڑ بھارتی روپے کے معاہدے میں بھارت کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بدعنوانی کے الزامات عائد کیے تھے۔

فرانس کی پبلک پراسیکیوشن سروسز کی فنانشل کرائم برانچ (پی این ایف) نے ابتدا میں تحقیقات سے انکار کیا تھا جس پر ایک تحقیقاتی ویب سائٹ ‘میڈیا پارٹ‘ نے پی این ایف اور فرانس کی انسدادِ بدعنوانی ایجنسی پر اس سودے میں مبینہ بد عنوانی کو دبانے کا الزام عائد کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق ’میڈیا پارٹ‘ نے رواں سال اپریل میں دعویٰ کیا تھا کہ فرانس کی طیارہ ساز کمپنی ’دسالٹ ایوی ایشن‘ نے اس سودے کے لیے بروکر کو لاکھوں یوروز کمیشن میں دیے تھے۔

یہ کمیشن ان بھارتی اہلکاروں کو بطور رشوت دیا گیا جنہوں نے اس سودے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم دسالٹ نے کہا تھا کہ گروپ کی آڈٹ رپورٹ میں اس قسم کی بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

اس رپورٹ کے بعد فرانس کی ایک نجی تنظیم ’شیرپا‘ نے، جو کہ مالی بدعنوانی کے معاملات دیکھتی ہے، بدعنوانی اور عہدے کے غلط استعمال سے متعلق ایک شکایت درج کرائی تھی۔

اس سودے کے بعد بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے زیادہ قیمت پر طیاروں کا سودا کیا ہے۔

کانگریس کے مطابق سابقہ یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) حکومت نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ایک طیارہ 526 کروڑ روپے میں خریدا گیا تھا جب کہ مودی حکومت نے ایک طیارہ 1670 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔

کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد مودی حکومت پر تنقید کی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ’رافیل اسکیم‘ کا استعمال کرتے ہوئے اشارتاً لکھا ’چور کی داڑھی‘۔

فرانس میں تحقیقات کے لیے جج کے تقرر کی رپورٹ کے بعد کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سودے کی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے تحقیقات کرائی جائے۔

کانگریس نے کہا ہے کہ صرف پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) ہی اس معاملے کی گہرائی میں جا سکتی ہے اور پوچھ گچھ کے لیے وزیرِ اعظم اور دوسروں کو طلب کر سکتی ہے۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے آن لائن نیوز کانفرنس میں کہا کہ صرف جے پی سی ہی اہل اتھارٹی ہے اور سپریم کورٹ بھی تمام دستاویزات طلب کرنے والی اہل اتھارٹی نہیں ہے۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وہ تمام دستاویزات طلب کرنے کی مجاز اتھارٹی نہیں ہے۔ لہٰذا وزیرِ اعظم کو ملک کو یہ بتانا چاہیے کہ اب جب کہ فرانس میں اس کی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں تو ان کی حکومت کب جے پی سی سے جانچ کرائے گی۔

کانگریس کے مطابق سابقہ یو پی اے حکومت نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ایک طیارہ 526 کروڑ روپے میں خریدا گیا تھا جب کہ مودی حکومت نے ایک طیارہ 1670 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔ (فائل فوٹو)
کانگریس کے مطابق سابقہ یو پی اے حکومت نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ایک طیارہ 526 کروڑ روپے میں خریدا گیا تھا جب کہ مودی حکومت نے ایک طیارہ 1670 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔ (فائل فوٹو)

کانگریس نے مزید کہا کہ اس سودے کے لیے مودی حکومت نے دسالٹ کے شراکت دار کی حیثیت سے ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ کو آف سیٹ پارٹنر مقرر کیا تھا اور فرانس کی حکومت کے سامنے اسے ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس سے قبل فرانس کے سابق وزیرِ اعظم فرانسو اولاند نے بھی تقریباً ایسا ہی بیان دیا تھا۔

کانگریس کے مطابق اس سے قبل بھارت کے سرکاری ادارے ہندوستان ایروناٹک لمٹیڈ (ایچ اے ایل) کے ساتھ یہ سودا ہوا تھا لیکن بعد میں اس کی جگہ پر ریلائنس کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔

کانگریس کے بیان کے مطابق 25 مارچ 2015 کو دسالٹ ایوی ایشن کے سی ای او نے انڈین ایئر فورس اور ایچ اے ایل کے چیئرمین کی موجودگی میں کہا تھا کہ دسالٹ اور ایچ اے ایل کے درمیان سودا ہوا ہے۔ البتہ اگلے ہی روز ریلائنس اور دسالٹ کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے گئے۔

اس کے 15 دن کے بعد وزیرِ اعظم مودی نے 126 کی جگہ پر 36 طیاروں کی خرید کا اعلان کیا تھا۔

رندیپ سرجے والا کا کہنا ہے کہ اب رافیل سودے میں بدعنوانی واضح ہو گئی ہے اور فرانس کی جانب سے جج کی نامزدگی کے بعد کانگریس اور اس کے رہنما راہول گاندھی کے مؤقف کی توثیق ہو گئی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا ردِ عمل

بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے کہا ہے کہ کانگریس اور جھوٹ و مفروضہ ہم معنی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی ملک (فرانس) کی نجی تنظیم (شیرپا) کوئی الزام عائد کرتی ہے اور اس کا مالیاتی ادارہ اس کی تحقیقات کا حکم دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں بدعنوانی ہوئی ہے۔

بھارت اور فرانس کے درمیان 36 طیاروں کے لیے یہ معاہدہ سن 2016 میں ہوا تھا۔ (فائل فوٹو)
بھارت اور فرانس کے درمیان 36 طیاروں کے لیے یہ معاہدہ سن 2016 میں ہوا تھا۔ (فائل فوٹو)

ان کے مطابق اس معاملے پر راہل گاندھی اور کانگریس جس طرح سیاست کر رہے ہیں وہ افسوس ناک ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ راہل گاندھی حریف دفاعی کمپنیوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور ان کی پارٹی بدعنوانی کا الزام لگا کر ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پارلیمنٹ کے 2019 کے انتخابات سے قبل کانگریس نے اس سودے پر متعدد سوالات اٹھائے تھے اور بدعنوانی کا الزام عائد کیا تھا۔

راہل گاندھی نے اس وقت ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگایا تھا جو کافی مقبول ہوا تھا۔

یاد رہے کہ 2014 کے عام انتخابات کے موقع پر نریندر مودی نے عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیرِ اعظم بننا نہیں چاہتے۔ عوام انہیں چوکیدار بنا دیں۔ وہ ملک کی حفاظت کریں گے۔

راہل گاندھی کے ’چوکیدار چور ہے‘ کے نعرے کے بعد وزیرِ اعظم مودی نے سوشل میڈیا پر اپنے نام کے آگے چوکیدار لگا دیا تھا۔ اس کے بعد متعدد وزرا اور بی جے پی رہنماؤں نے اپنے نام کے آغاز میں ’میں بھی چوکیدار ہوں‘ لگایا تھا۔

بھارت کی حکومت نے رافیل سودے میں بدعنوانی کے کانگریس کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG