افغانستان میں سویت یونین کے حملے کو لگ بھگ 40 برس بیت چکے ہیں۔ سویت یونین کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کو اپنی آںکھوں سے دیکھنے والے ایک مرتبہ پھر اسی تشویش میں مبتلا ہیں کہ کہیں امریکہ کی واپسی کے بعد افغانستان کو دوبارہ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
صدیق رسول زئی نوجوان تھے جب ریڈ آرمی کابل پر حملہ آور ہوئی تھی۔ اس وقت اُنہیں کچھ علم نہیں تھا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
رسول زئی کے بقول، "والدین نے مجھے بتایا کہ جو کچھ فلسطین میں ہوا اب ہمارے ساتھ ہو گا لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ ہم اس کے مستحق ہیں۔"
رسول زئی نے 1985 میں سویت یونین کی حمایت یافتہ افغان فوج میں شمولیت اختیار کی اور تین برس تک خدمات انجام دیں۔
اُن کے بقول، "مجھے کمیونسٹ بہت پسند تھے، وہ تعلیم یافتہ تھے اور مجاہدین کی طرح نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے سویت کابل کو ترقی دے رہے ہیں، وہاں بلند و بالا عمارتیں ، سڑکیں تعمیر ہو رہی تھیں یہاں تک کہ بجلی سے چلنے والی بسوں کا نظام بھی متعارف کرایا جارہا ہے۔"
رسول زئی ان دنوں بھارت کے شہر نئی دہلی میں رہائش پذیر ہیں اور ایک معمولی سی دکان چلا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ان کے پاس سب کچھ تھا اور اب یہاں سوائے گزر بسر کے اور کچھ نہیں ہے۔
رسول زئی نے 2015 میں افغانستان سے بھارت اس وقت نقل مکانی کی جب انہیں احساس ہوا کہ ملک میں موجود غیر ملکی افواج میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
ان میں وہی احساس ایک مرتبہ پھر پنپنے لگا کہ کہیں غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کا شکار نہ ہو جائے اور یہی احساس انہیں بھارت کھینچ لایا۔
یاد رہے کہ فروری 1989 میں جب سویت یونین نے افغانستان سے انخلا مکمل کیا تو اس کے بعد اقتدار کے حصول کے لیے نوے کی دہائی میں مجاہدین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور ملک خانہ جنگی کا شکار رہا۔
دسمبر 1989 میں سویت یونین کے حملے کو 40 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس جنگ کے دوران 20 لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور 70 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ جنگ کے دوران 14 ہزار سویت اہلکار مارے گئے۔
سابق جنگجو مجاہد شاہ سلیمان ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے معذور ہیں اور کابل کے شمالی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
باسٹھ سالہ سلیمان کا کہنا ہے کہ جب ہم سویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے تو ہمیں اچھے مستقبل کی توقع تھی لیکن بدقسمتی سے حالات مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان اور افغان شہریوں کے لیے تباہی اور تکلیف ہی لے کر آئی تھی۔
سلیمان سویت یونین کے خلاف جنگ میں 12 افراد پر مشتمل ایک دستے کی کمانڈ کر رہے تھے جو پنچشیر کے علاقے میں تعینات تھا۔
سلیمان نے کہا کہ یہ میرا مذہبی فریضہ تھا کہ میں سویت یونین کے خلاف جہاد کروں، وہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہوئے تھے اور ملک میں لادینیت کو فروغ دے رہے تھے۔
الیاس داؤدی سویت انٹیلی جنس کے اہلکار تھے، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی جنوبی سرحدوں کی حفاظت کی اور میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ ہماری موجودگی افغانستان کے لیے بہت ضروری ہے۔
باون سالہ الیاس کی افغان مشرقی صوبہ ہیرات میں 1986 میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے کے نتیجے میں ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔
افغان جنگ کا حصہ رہنے والے سابق روسی فوجی اب بھی سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں رہنا اور وہاں سے اسلام کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنا درست تھا۔
جنگی معلومات اکٹھی کرنے والے روسی فوج کے سابق افسر ولادی میر چیوٹسیو کا کہنا ہے کہ 1979 میں افغانستان میں فوج بھیجنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ جنگ زندگی کا ایک بہترین اسکول ہے جہاں آپ بہت جلد سیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور بہترین حل نکالتے ہیں۔
ولادی میر چیوٹسی افغانستان میں روسی فوج کے لیے 16 ماہ تک خدمات انجام دے چکے ہیں اور 1987 میں افغان صوبے خوست میں ایک بم دھماکے کے دوران اپنی آںکھیں گنوا بیٹھے تھے۔
افغان جنگ سویت عوام کے لیے اس وقت بھی غیر مقبول تھی جب سویت یونین کے فوجی افغانستان میں موجود تھے اور 1989 میں سرکاری طور پر اس جنگ کی مذمت بھی کی گئی۔
افغان جنگ کے اختتام پر روس پارلیمانی دفاعی کمیٹی سابق فوجیوں کی جانب سے شدید دباؤ کی شکار تھی۔ البتہ کمیٹی نے ایک قرار داد ڈرافٹ کی جس میں کہا گیا کہ سویت یونین کی افواج نے دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں سے لڑنے کے لیے افغان حکام کی مدد کی اور سویت یونین کی سلامتی کو درپیش خطرے کو روکا۔