افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے شدت پسند گروپ داعش کو مبینہ طور پر امریکہ کا " آلہ کار" قرار دیتے ہوئے، روس کے طالبان کے ساتھ روابط اور عسکریت پسند گروپ کو امن مذاکرات میں شامل کرنے کی کوششوں پر ہونے والی تنقید کو مسترد کیا ہے۔
حامد کرزئی نے گزشتہ ہفتہ داعش کے خلاف "مدر آف آل بمبز" کے حملے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ "(امریکہ) کی طرف سے افغانستان میں گرائے جانے والے بم نے داعش کو ختم نہیں کیا ہے۔"
کرزئی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ "میں داعش کو ان کا آلہ کار سمجھتا ہوں۔۔۔ میری نظر میں داعش اور امریکہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔"
امریکہ کی فوج افغان فورسز کے ساتھ مل کر رواں سال افغانستان سے داعش کو ختم کرنے اور طالبان عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے عزم کا اظہار کر چکی ہے۔
امریکہ کی فوج کے ترجمان نیوی کے کیپٹن بل سلوین حال ہی میں ’وی او اے‘ کو بتایا تھا کہ افغان فورسز کی قیادت میں ہونے والی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے داعش کے زیر کنٹرول علاقے میں "دوتہائی" اور اس کے جنگجوؤں کی تعداد میں "50 فیصد سے زائد" کمی ہوئی ہے۔
امریکہ کی طرف سے خاص طور پر حالیہ ہفتوں میں ہونے والی کارروائیوں کے باوجود حامد کرزئی نے وی او اے کو بتایا کہ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے میں داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں ہونے والی لڑائی " کمزور" رہی۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکہ داعش اور اتحادیوں کو ختم کرنے کے لیے شام، عراق اور دیگر علاقوں میں لڑائی کر رہا ہے تاہم ان کے پاس اپنے الزامات کی تقویت کے لیے بہت زیادہ شواہد موجود ہیں۔
اپنے دور صدرات کے دو ادوار کے دوران حامد کرزئی کے امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے۔
تاہم حالیہ سالوں میں ان کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں، انہوں نے گزشتہ ہفتہ افغانستان میں داعش کے گڑھ پر امریکہ کی طرف سے سب سے بڑا غیر جوہری بم گرانے کی مذمت اور اس بم کے استعمال کی اجازت دینے پر افغان صدر اشرف غنی کے خلاف بڑے سخت الفاظ استعمال کیے۔
حالیہ سالوں میں داعش کی افغانستان میں سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے کئی مہلک حملوں بشمول گزشتہ ماہ کابل میں ایک فوجی اسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور 80 دیگر زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب طالبان کے روس کے ساتھ رابطے ایک ایسے وقت توجہ کا مرکز بنے جب ماسکو اس ملک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا متمنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ شدت پسند گروپ داعش کے دائرہ اثر کو وسط ایشیائی ریاستوں تک بڑھانے سے روکنا چاہتا ہے، جس پر ایک دور میں اس نے قبضہ کر رکھا تھا۔
افغانستان میں روس کی بڑھتی ہوئی مبینہ فوجی مداخلت کی وجہ سے امریکی اور افغان حکام کی اس بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ روس داعش جیسے شدت پسند گروپوں کے خلاف طالبان عسکریت پسندوں کی درپردہ حمایت کر رہا ہے۔
وی او اے کے ساتھ انٹرویو میں حامد کرزئی نے ماسکو کے طالبان کے ساتھ رابطوں پر تنقید کو مسترد کیا۔
صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد سے صدر حامد کرزئی کے روس سے تعلقات میں قربت آئی ہے اور 2015ء میں صدر پوٹن سے ملاقات کے لیے کیے گئے دورہ ماسکو کے دوران انہوں نے کرائیمیا پر روس کی قبضہ کی حمایت کی تھی۔
کرزئی نے روس کے بارے میں کہا کہ "وہ طالبان سے بات کرتے ہیں۔"
"امریکہ بھی طالبان سے بات کرتا ہے۔ ناروے، جرمنی اور دیگر ملک بھی طالبان سے بات کرتے ہیں۔ روس کا بھی طالبان کے ساتھ بات کرنے کا حق ہے۔"
گزشتہ سال اکتوبر میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق کم ازکم ایک امریکی عہدیدار نے افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ ہونے " غیر رسمی رابطوں "کے تین ادوار میں شرکت کی۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اس وقت سامنے آنے والی رپورٹ پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ " افغان تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے عزم پر قائم ہے۔"
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے گزشتہ اختتام ہفتہ کابل میں افغان راہنماؤں سے ملاقات کی اور کہا کہ ملکوں کو افغان طالبان کی حیثیت کو قانونی بنانے کی کوششوں سے گریز کرنا چاہیئے۔
میک ماسٹر سے جب روس کے طالبان کے ساتھ درپردہ رابطوں سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ "کسی کو بھی طالبان کی مدد نہیں کرنی چاہیئے۔۔۔ کسی کو بھی نہیں چاہیئے کہ وہ افغان حکومت اور افغان عوام کے خلاف مسلح مزاحمت کی مدد کریں۔"