سفری معلومات پر کام کرنے والے دو معتبر اداروں نے پیش گوئی کی ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والا امریکی ہوٹل انڈسٹری کا بحران 2023 تک ہی ختم ہو سکے گا۔
یہ پیش گوئی سفری معلومات مرتب کرنے والی کمپنی 'ایس ٹی آر' اور کنسلٹنٹ کمپنی 'ٹورازم اکنامکس' نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں کی ہے۔
دونوں کمپنیوں کا اندازہ ہے کہ رواں برس امریکی ہوٹلز میں اوسطاً بکنگ 40 فی صد رہے گی جو 2021 میں بڑھ کر اوسطاً 52 فی صد تک ہونے کا امکان ہے۔
کرونا کی وبا سے قبل 2019 میں امریکہ میں ہوٹلوں میں کمروں کی بکنگ اوسطاً 66 فی صد رہی تھی جو ہوٹلنگ کی صنعت کے لیے ایک مناسب سطح ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جیسے جیسے معمولاتِ زندگی بحال ہو رہے ہیں، بعض مقامات پر ہوٹلنگ کا رجحان بڑھا ہے لیکن بعض معروف سیاحتی مقامات کے ہوٹلز اب بھی سیاحوں کی راہ تک رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے ریاست ورجینیا کے شہر نارفوک جیسے ساحلِ سمندر پر واقع مقامات میں ہوٹلز میں بکنگ 67 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔ لیکن ریاست ہوائی کے معروف سیاحتی جزیرے اوواہو میں گزشتہ ہفتے ہوٹلوں کے صرف 20 فی صد کمرے بک تھے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سیر و تفریح کی سرگرمیوں میں تو اضافہ ہو رہا ہے، لیکن کاروباری مقاصد کے لیے سفر کے رجحان میں کمی اور کانفرنسوں اور شادیوں کا انعقاد نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل کسی بڑی آمدنی سے محروم ہیں۔
ٹورازم اکنامکس کے صدر ایڈم ساکس کے مطابق کرونا وائرس کی جاری وبا کے سفر سے متعلق صنعت پر اثرات 2021 کی پہلی سہ ماہی تک رہیں گے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ ہوٹلوں کے کاروبار میں بحالی کا اصل آغاز اگلے برس کی دوسری ششماہی سے ہونے کی توقع ہے۔
دونوں کمپنیوں کے مطابق امریکہ میں ہوٹلوں کی آمدنی 2024 تک ہی معمول پر آئے گی۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت سفر کرنے والے سستی ڈیلز چاہتے ہیں اور اسی لیے لگژری ہوٹلز کے مقابلے پر درمیانے درجے کے ہوٹلوں کا کاروبار زیادہ تیزی سے بحال ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ہوٹلوں کا فی کمرہ اوسطاً کرایہ جو 2019 میں 86.64 امریکی ڈالر رہا تھا، وہ اس سال کم ہو کر 41.31 امریکی ڈالر تک آ گیا ہے۔
امریکہ میں سفر و سیاحت ایک بڑی صنعت ہے جس سے تقریباً 80 لاکھ افراد کا براہِ راست روزگار وابستہ ہے۔ 2018 میں امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سفر و سیاحت کا حصہ 8ء2 فی صد تک تھا۔ لیکن کرونا کی حالیہ وبا نے اس انڈسٹری کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔