رسائی کے لنکس

امریکی سینیٹ میں افغانستان پر پیش کیے گئے بل کے مضمرات نظر انداز نہیں کر سکتے: پاکستان


پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ یہ بل ری پبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جن کا افغانستان سے متعلق مخصوص مؤقف ہے۔ وہ امریکہ کی بعض پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ یہ بل ری پبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جن کا افغانستان سے متعلق مخصوص مؤقف ہے۔ وہ امریکہ کی بعض پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ کی سینیٹ میں افغانستان سے متعلق پیش کیے گئے مجوزہ بل کے اسلام آباد کے لیے مضمرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

شاہ محمود قریشی نے جمعے کو اسلام آباد میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ جیپ کوفود کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ پاکستان پوری طرح سے صورتِ حال سے آگاہ ہے۔ اسلام آباد واشنگٹن کو درست مؤقف واضح کرنے کی کوشش کرے گا۔

امریکہ کی سینیٹ میں ری پبلکن سینیٹرز نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں 2001 سے 2021 کے دوران طالبان کو مبینہ طور پر پاکستان سمیت دیگر ذرائع سے ملنے والی مدد کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یہ بل ری پبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جن کا افغانستان سے متعلق مخصوص مؤقف ہے۔ وہ امریکہ کی بعض پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں بعض لوگ افغانستان سے فوری انخلا کے حق میں نہیں تھے اور انہیں یہ رائے رکھنے کا حق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی کانگریس کو افغانستان میں امن عمل اور لڑائی میں پاکستان کے مثبت کردار کا ادراک کرنا ہو گا۔ پاکستان کو موردِ الزم ٹھیرانے کے بجائے افغانستان میں ناکامی کی وجوہات تلاش کرنی ہوں گی۔

امریکہ کی سینیٹ میں پیش کیے گئے بل پر وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اس بل سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کے اندر اور باہر ایسے حلقے ہو سکتے ہیں جو اس بل کے ذریعے پاکستا ن کو مبینہ طور ذمہ دار ٹھیرانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ البتہ اسلام آباد اپنے مؤقف کا دفاع کرسکتا ہے۔

پریس کانفرنس میں افغانستان میں شدت پسند گروہوں کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف امریکہ کی فضائی کارروائی کے لیے پاکستان کی حدود استعمال کرنے کی اجازت کے سوال پر وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ماضی میں دی گئی فضائی راہداری کے افادیت کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں فضائی راہداری کی سہولت ایک بار پھر امریکہ کو دینے کے بارے میں فیصلہ پاکستان کی کابینہ قومی مفاد اور ملک کی سلامتی کو مدِ نظر رکھ کر کرے گی۔

امریکہ کے اعلیٰ جنرل نے حال ہی میں کہا تھا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کی فضائی راہداری کےاستعمال کے لیے واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ براہِ راست بات چیت کر رہا ہے۔

امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی نے اس بات کی تصدیق کانگریس میں افغانستان سے متعلق ہونے والی سماعت کے دوران کی تھی۔

جنرل فرینک میکینزی کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برس کے دوران امریکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتا رہا ہے۔ صرف فضائی راستہ ہی نہیں بلکہ بعض زمینی راستے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

دوسری جانب ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ جیپ کوفوڈ نے کہا کہ ڈنمارک طالبان کی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک افغانستان میں ایسی حکومت قائم نہیں ہو جاتی جو خواتین اور بچوں سمیت دیگر اقلیتوں کے کے بنیادی حقوق کا احترام کرے۔

افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے اور عبوری حکومت تشکیل دینے کے بعد طالبان متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ وہ بین الاقوامی برداری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔

ڈنمارک کے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں مستقبل کی کسی بھی حکومت کو وعدوں کے بجائے عملی اقدامات سے پرکھا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG