امریکہ میں گزشتہ سال مئی میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت میں نامزد پولیس افسر ڈیرک شاوین کے خلاف مقدمے کی کارروائی اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ منگل کے روز ملزم کے دفاعی وکلاٗ نے اپنا کیس پیش کرتے ہوئے 2019 میں جارج فلائیڈ اور پولیس کے مابین ہونے والے ایک جھگڑے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلائیڈ کو منشیات کی عادت تھی۔
یاد رہے کہ پولیس افسر ڈیرک شاون کے دفاعی وکیل ایرک نیلسن نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ 46 برس کے فلائیڈ کی ہلاکت منشیات کے استعمال اور دیگر صحت کے مسائل کی وجہ سے ہوئی اور پولیس اہلکار کی جانب سے انہیں 9 منٹ تک الٹا لٹا کر ان کی گردن پر ٹانگ رکھناان کی ہلاکت کی وجہ نہیں تھی۔
منگل کے روز دفاع کی جانب سے اپنا پہلا گواہ پیش کیا گیا۔ دفاعی گواہ سکاٹ کریگٹن منی ایپلس شہر کی پولیس کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔ انہوں نے اپنی گواہی میں جیوری کو بتایا کہ گزشتہ سال فلائیڈ کی ہلاکت سے ایک سال قبل 6 مئی 2019 کو بھی فلائیڈ پولیس کے ساتھ ہونے والے ایک جھگڑے میں گرفتار کئے گئے تھے۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق دفاعی گواہ سکاٹ کریگٹن نے بتایا کہ اس واقعے میں گاڑی میں بیٹھے ہوئے جارج فلائیڈ نے ان کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ انہیں نہیں دکھائے، تو پولیس اہلکار کو اس پر پستول نکالنی پڑی تھی۔
دفاع کی دوسری گواہ ریٹائرڈ پیرامیڈک مشیل نے، جو 2019 کے واقعے کے وقت موقعے پر موجود تھیں، بتایا کہ فلائیڈ نے انہیں خود بتایا کہ وہ ہر بیس منٹ بعد منشیات کا استعمال کر رہے تھے۔
مشیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ فلائیڈ کا بلڈ پریشر جب چیک کیا گیا تو وہ کافی زیادہ تھا۔
اس پر استغاثہ کے وکیل کے پوچھنے پر مشیل نے عدالت کو بتایا کہ فلائیڈ کی سانس، نبض، دل کی دھڑکن وغیرہ بالکل درست تھی۔
اس سے پہلے پیر کے روز استغاثہ کی جانب سے گواہی دیتے ہوئے ایک ماہر امراض قلب نے کہا تھا کہ فلائیڈ کی موت کی وجہ نہ تو دل کا دورہ تھی اور نہ زیادہ مقدار میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے یہ ہلاکت ہوئی تھی۔
امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونی ورسٹی کے میڈیکل سکول میں پروفیسر اور دل کے امراض کے ماہر ڈاکٹر جو ناتھن رچ نے عدالت میں جیوری کو بتایا کہ اگر فلائیڈ کو ’’ پولیس نے جیسے بے بس کیا، ایسے نہ کیا جاتا تو وہ بچ سکتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اگر انہیں الٹا لٹا کر یوں بے بس نہ کیا جاتا، تو میرے خیال میں، وہ اس واقعے کے بعد آرام سے گھر جا سکتے تھے یا جہاں بھی وہ جانا چاہتے تھے۔‘‘
یاد رہے کہ پچھلے ہفتے کی کارروائی کے دوران جمعے کے روز ایک سابق فورینزک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر لنزے تھامس نے امریکی عدالت میں اپنی گواہی میں کہا تھا کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پولیس آفیسر کی جانب سے گردن پر مسلسل گھٹنا رکھنے سے ہوئی، جس سے فلائیڈ کو آکسیجن مکمل طور پر نہیں مل رہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسی صورت میں ہلاکت کی ابتدائی وجہ سانس گھٹنا یا کم مقدار میں آکسیجن مہیا ہونا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 25 مئی کو جارج فلائیڈ اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب ایک پولیس اہل کار ڈیرک شاوین نے ان کی گردن اپنی ٹانگ سے نو منٹ تک مسلسل دبائے رکھی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیو اردگرد کھڑے شہریوں نے بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد امریکہ کے کئی شہروں اور دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ڈیرک شاوین اور ان کے دیگر ساتھیوں کو پولیس کے محکمے نے اس واقعے کے بعد ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔ اب ان پر جارج فلائیڈ کے قتل کا الزام ہے جب کہ ان کے ساتھیوں پر معاونت کے الزامات ہیں۔
حال ہی میں مقامی حکومت نے جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے تصفیے کے لیے دو کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کا ہرجانہ ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔