پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب سے ملک بھر میں غیر معمولی نقصانات ہوئے ہیں اور اس کی زد میں آنے والے محروم طبقوں میں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں جن سے سیلاب نے سر چھپانے کے عارضی ٹھکانے بھی چھین لیے ہیں۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے سیلاب سے متاثر ہونے والے افغان مہاجرین کے مستقبل کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں عالمی ادارے نے کہا ہے کہ پاکستان میں درج شدہ مہاجرین کی تعداد 17 لاکھ ہے جن میں سے 15 لاکھ سیلاب زدہ صوبوں میں آباد تھے۔
صرف صوبہ خیبر پختون خواہ میں سیلاب سے تباہ ہونے والے دیہاتوں میں 12 ہزار جھونپڑیاں مکمل طور پر تباہ ہونے سے تقریباً 70 ہزار مہاجرین بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ نوشہرہ ضلع کے اضا خیل گاؤں میں 23 ہزار افغان مہاجرین اپنے ٹھکانوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کی ایک ٹیم اضاخیل میں تعمیر نو کا جائزہ لینے کے لیے یہاں کا دورہ کر رہی ہے جب کہ صوبائی حکومت آئندہ چند روز میں اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا بے گھر افغان مہاجرین کو اسی گاؤں میں آباد کیا جا سکتا ہے یا پھر کسی اور جگہ کا انتخاب کرنا ہو گا۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ 30 برس قبل روس کی افغانستان پر لشکر کشی کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہریوں کی پاکستان آمد شروع ہوئی تھی اور ان مہاجرین نے شہروں کے نواح میں اپنی خیمہ بستیاں قائم کی تھیں ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہری آبادی بڑھنے کی وجہ سے مکانات کے لیے زمین کی ضروت میں اضافہ ہوتا گیا اور جس زمین پر یہ خیمہ بستیاں قائم ہیں ان کی قدر میں اضافہ ہو گیا۔
یو این ایچ سی آر نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں بعض عناصر موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے افغان مہاجرین کی زبردستی افغانستان واپسی پر زور دے رہے ہیں تاکہ خیمہ بستیوں کو جدید رہائشی سکیموں میں تبدیل کیا جا سکے۔ تاہم بیان میں ان عناصر کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارے نے وفاقی حکومت کی ان یقین دہانیوں کو سراہا ہے کہ تمام سیلاب زدگان کو اپنے علاقوں میں واپس جا کر تعمیر نو کا موقع دیا جائے گا۔