ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں صحت کی صورت حال بہت حد تک قابو میں ہے اور آگے چل کر اس میں مزید بہتری کی توقع ہے لیکن اُنھوں نے متنبہ کیا ہے کہ مستقبل میں خطرناک امراض کی وجہ سے ہلاکتوں کو فی الحال خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
امدادی ادارے اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ قدرتی آفت کے بعد لاکھوں کی تعداد میں متاثرہ آبادی کی ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی، صفائی کی ناقص صورت حال اور گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں کئی ہلاکتوں کا سبب بن سکتی ہیں۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کے تقریباً چار ہزار ڈاکٹروں پر مشتمل ہے جس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ممتاز حسین خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت اگرچہ متاثرین سانس، جلد اور پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جو متوقع بھی تھا لیکن ان کے مطابق ابھی تک کوئی سنگین بحران سامنے نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ملکی اور غیر ملکی اداروں کی مشترکہ کوششوں سے اگرچہ صورت حال کو قابو میں رکھا ہے لیکن ان میں ابھی بھی ہیضے سمیت دوسرے وبائی امراض کے پھوٹنے کا خطرہ موجود ہے جس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار بنیادوں پر صحت اور صفائی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات جاری رکھےجائیں۔
اسی طرح کے خیالات کا اظہار وفاقی وزارت صحت کے ڈاکٹر الطاف بوسن بھی کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ متعلقہ اداروں کی طرف سے بر وقت اقدامات نے صحت کے سنگین مسائل سے بہت حد تک لوگوں کو محفوظ رکھا ہے لیکن انھوں نے یہ بھی متنبہ کیا کہ ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے اوراس سلسلے میں دور اندیشی پر مبنی اقدامات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس ہفتے وزارت صحت اور بچوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسف حفاظتی ٹیکوں کی ایک ملک گیر مہم شروع کر رہے ہیں جس کے تحت نہ صرف وہ بچے جنھیں وبائی امراض سے خطرہ لاحق ہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں موجود پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا اڑھائی کروڑ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفت کے بعد لاکھوں کی تعداد میں متاثرہ آبادی کی ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی، صفائی کی ناقص صورت حال اور گندے پانی سے بچوں کو آٹھ متعدی امراض سے خطرہ ہے جن میں پولیو، خسرہ، کالی کھانسی، تشنج اور انفلونزا شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود تقریباً پانچ لاکھ خواتین کے ہاں اگلے چھ ماہ کے دوران بچوں کی پیدائش متوقع ہے اور ان میں سے 30 ہزار سے زائد کو پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کی صحت کا تحفط ایک کڑا چیلنج ہے۔
اُدھر صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے پیر کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کی روک تھام کے لیے کھڑے پانی والے علاقوں میں سپرے کیا جا رہا ہے، فلٹریشن پلانٹس کے قیام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو کلورین ملا پینے کا صاف پانی دیا جا رہا ہے جب کہ عالمی ادارہ صحت بھی ملیریا سمیت دوسری خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو بھر پور مدد فراہم کر رہا ہے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کے تقریباً چار ہزار ڈاکٹروں پر مشتمل ہے جس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ممتاز حسین خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت اگرچہ متاثرین سانس، جلد اور پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جو متوقع بھی تھا لیکن ان کے مطابق ابھی تک کوئی سنگین بحران سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1