رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر کی کابینہ میں بی جے پی کے پانچ نئے وزیر شامل


بھارتی کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی۔ فائل فوٹو
بھارتی کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی۔ فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر پیش آئی ایک اہم تبدیلی کے تحت ریاستی کابینہ میں نو نئے وزرا کو شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے آٹھ کابینہ درجے کے وزیر اور ایک وزیرِ مملکت شامل ہیں جبکہ ایک موجودہ وزیرِ مملکت کا درجہ بڑھا کر اُسے کابینہ درجے کا وزیر بنا دیا گیا ہے۔

نئے وزرا کو عہدے کا حلف گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے سرمائی دارالحکومت جموں میں پیر کو منعقد کی گئی ایک تقریب پر لیا۔ وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی پیر کی رات تک یا منگل کے روز اپنی کابینہ کے تمام 25 ممبران میں جن میں وہ خود بھی شامل ہیں نئے پورٹ فولیوز الاٹ کریں گی۔

عام حالات میں کسی صوبائی کابینہ میں اس طرح کا رد و بدل کوئی بڑی بات نہیں بلکہ ایک معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن شورش زدہ ریاست کی کابینہ کی تشکیلِ نو مخلوط حکومت میں شامل ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو اہم وزیروں کے مستعفی ہونے کی وجہ سے ناگزیر ہو گئی تھی۔

وزیرِ جنگلات چوہدری لال سنگھ اور وزیرِ صنعت و حرفت چندر پرکاش گنگا سے استعفے ان کی طرف سے ریاست کے ضلع کٹھوعہ میں اس سال جنوری میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی اور پھر قتل میں مبینہ طور پر ملوث افراد کی حمایت کرنے پر سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی تنقید اور دباؤ کے بیچ طلب کئے گئے تھے۔

کٹھوعہ کے ایک گاؤں رسانہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو اس سال 10 جنوری کو اچانک لاپتہ ہوگئی تھی۔ ایک ہفتے بعد اُس کی لاش گاؤں کے مضافات میں جھاڑیوں میں ملی تھی۔

ڈی این اے رپورٹ اور پولیس کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے مطابق آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اُسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی ۔

اس گھناونی حرکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے مندر کے نگراں سانجی رام اور ایک اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت چھہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ مقامی پولیس کے ایک سب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹیبل کو بھی کیس سے متعلق ثبوت مٹانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے-

پیر کو جن نئے وزرا کو حلف دلایا گیا ان میں کٹھوعہ کے ممبراسمبلی راجیو جسروتیا بھی شامل ہیں جو ملزموں کے حق میں چلائی جارہی مہم میں مبینہ طور پر ہراول دستے کے طور پر شامل رہے ہیں۔

سیاسی حلقوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اگر دو وزرا لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا کو اس لئے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا کہ انہوں نے علاقے میں 3 مارچ کو ملزموں کی رہائی اور معاملے کی تحقیقات بھارت کے وفاقی ادارے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کرانے کے مطالبے کے حق میں منعقد کی گئی ایک ریلی میں شرکت کی تھی تو ایک ایسے شخص کو جو ملزموں کی پشت پناہی کرنے میں پیش پیش رہا ہے ، اسے کیونکر کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ لگتا ہے ان کی جانشین اور مخلوط حکومت میں شامل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کٹھوعہ میں پیش آئے واقعے کے بارے میں الجھن میں ہیں کیونکہ "عصمت دری کرنے والوں کے حق میں نکالی گئی ریلی" کے شرکاء میں سے ایک کو انہوں نے اپنی کابینہ میں شامل کرلیا ہے۔

راجیو جسروتا کو کابینہ میں شامل کئے جانے پر سوشل میڈیا میں بعض لوگوں کی جانب سے خوب لے دے کی جارہی ہے۔ ایک سرکردہ سول سوسائٹی کارکن اور تاجر سید شکیل قلندر نے اپنی فیس بُک وال پر لکھا۔ "پی ڈی پی نے دو وزرا کو ہندو ایکتا منچ کے اہتمام سے نکالی گئی ریلی میں شریک ہونے پر برطرف کرنے کا کریڈٹ لیا تھا۔ اب وہ راجیو جسروتا کو جو کٹھوعہ کا ممبر اسبلی ہے اور جس نے نہ صرف اس متنازعہ ریلی میں شرکت کی تھی بلکہ ملزموں کے حق میں نکالی گئی اس طرح کی تمام ریلیوں اور ایجی ٹیشن کا پشت پناہ رہا ہے کابینہ میں شامل کئے جانے کے اقدام کا کیا جواز پیش کرے گی"۔

لیکن بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکریٹری اور کشمیر پر پارٹی کے نگران رام مادھو وارانسی نے جموں میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ نئے وزرا کے تقرر اور کابینہ میں رد و بدل کا کھٹوعہ میں پیش آئے واقعے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ۔" ہماری حکومت نے تین سال مکمل کرلئے ہیں اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اب نئے چہروں کو موقع فراہم کیا جائے"

کابینہ میں کئے گئے ردو بدل میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈر ڈاکٹر نرمل سنگھ کو نائب وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹاکر ان کی جگہ ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتا کو نائب وزیرِ اعلیٰ بنادیا گیا ہے۔ بی جے پی کے ایک اور اہم چہرے وزیرِ صحت بالی بھگت کو بھی ڈراپ کیا گیا ہے۔

پی ڈی پی نے بھی اپنے ایک وزیر عبد الحق خان کو مستعفی ہونے کے لئے کہا۔ وہ مخلوط حکومت میں قانون اور دیہی ترقی کے وزیر تھے۔ پارٹی کے دو ممبرانِ اسمبلی محمد خلیل باندھ اور محمد اشرف میر پیر کو حلف لینے والے نئے وزرا میں شامل ہیں۔ اس طرح نئی کابینہ میں پی ڈی پی کے وزیرِ اعلیٰ سمیت چودہ اور بی جے پی کے گیارہ وزیر ہیں جن میں نائب وزیرِ اعلیٰ بھی شامل ہیں۔ ریاستی اسمبلی کا نیا اسپیکر بی جے پی سے ہو گا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ قرعہ فال سبکدوش ہونے والے نائب وزیرِ اعلیٰ نرمل سنگھ کے نام نکلے گا۔

پی ڈی پی نے اس سے پہلے اپنے ایک سینئر لیڈر ڈاکٹر حسیب درابو کو ’ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے‘ کہنے کی پاداش میں وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا تھا ۔

درابو نے جو ایک مانے ہوئے ماہرِ اقصادیات ہیں مارچ میں نئی دہلی میں منعقدہ ایک تقریب پر مبینہ طور پر کہا تھا "کشمیر ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہے جسے سماجی مسائل کا سامنا ہے"۔ جس کے بعد وزیرِ اعلیٰ نے انہیں کابینہ سے نکال دیا کیونکہ درابو کا یہ بیان پی ڈی پی اور اس کی قیادت کے لئے سبکی کا باعث بن گیا تھا۔

درابو کے بیان پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارت نواز مقامی سیاسی تنظیموں، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی قیادت اور سماجی اور تاجر تنظیموں کی طرف سے شدید ردِ عمل ہوا تھا اور درابو کو زبردست تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ چنانچہ پی ڈی پی کو اپنے اس موقف کا اعادہ کرنا پڑا تھا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور یہ کہ وہ اپنے وجود سے لیکر آج تک مسئلہ کشمیر کو داخلی اور خارجی دونوں سطح پر مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرانے کے لئے مسلسل کوششیں کرتی چلی آئی ہے-

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG