پاکستان میں افغان سفیر کی صاحبزادی کے مبینہ اغوا اور تشدد کے واقعے کے بعد پولیس نے افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی اسلام آباد کی کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی گئیں اور وہاں سے دامن کوہ تک پہنچیں، سیف سٹی کیمروں کا ریکارڈ موجود ہے اور دو ٹیکسی ڈرائیورز کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے سیکٹر جی سیون میں واقع کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی گئیں جس کی فوٹیج موجود ہے۔
کھڈا مارکیٹ اسلام آباد کی وہ مارکیٹ ہے جہاں گاڑیوں کی مرمت کے لیے ورکشاپس موجود ہیں اور اس پوری مارکیٹ میں کوئی شاپنگ مال نہیں ہے۔
شیخ رشید نے بتایا کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا واقعہ 16 تاریخ کو پیش آیا، لڑکی کے بیان پر تھانہ کوہسار میں اغوا کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، امید ہے کہ ملزمان کو ایک دو دن میں گرفتار کر لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سیف سٹی کیمروں کا ریکارڈ ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی گھر سے پیدل نکلی اور اسلام آباد کی کھڈا مارکیٹ تک ٹیکسی پر آئی، اور وہاں سے اس نے ایک اور ٹیکسی لی اور فوٹیج کے مطابق وہ راولپنڈی گئی۔
شیخ رشید کے بقول راولپنڈی جانے کے بعد وہاں سے دامن کوہ پہنچی، راولپنڈی میں شاپنگ مال سے نکلنے کی فوٹیج بھی موجود ہے۔ لیکن راولپنڈی سے وہ دامن کوہ تک کیسے پہنچی اس بارے میں ابھی تفصیلات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کے بعد سلسلہ علی خیل پہلے نجی اسپتال گئیں اور پھر پمز گئیں، اس کا کھڈامارکیٹ سے پنڈی جانا ویڈیو میں موجود ہے۔ تینوں ٹیکسی ڈرائیورز سے تفتیش کی ہے جیسے جیسے تحقیقات ہو رہی ہیں کڑیاں مل رہی ہیں۔
'ایک شخص نے کہا تم کمیونسٹ کی بیٹی ہو، اسے نہیں چھوڑیں گے'
اس حوالے سے افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی سالگرہ کے لیے تحفہ لینے پیدل گھر سے نکلیں اور دو منٹ کی واک کے بعد ایک ٹیکسی لی۔
اُن کے بقول تحفہ خریدنے کے بعد گھر واپس آنے کے لیے ٹیکسی کے انتظار میں تھیں کہ ایک ٹیکسی میرے سامنے آ کر رکی اور میں اس میں سوار ہو گئی، پانچ منٹ کے بعد ٹیکسی رکی اور اس میں ایک اور شخص سوار ہو گیا۔
سلسلہ علی خیل کے بقول "میرے احتجاج پر سوار ہونے والے شخص نے منہ بند رکھنے کا کہا اور کہا کہ تم اسی کمیونسٹ کی بیٹی ہو، ہم اسے نہیں چھوڑیں گے اور کسی دن پکڑ لیں گے۔ بات کرنے کے دوران مذکورہ شخص نے مجھے دھکا دیا اور مارنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے میں خوفزدہ ہو گئی اور بے ہوش ہو گئی۔"
اُن کا کہنا تھا کہ "جب مجھے ہوش آیا تو میں کسی انتہائی گندی جگہ پر موجود تھی۔ مجھے سڑک نظر آرہی تھی۔ میں اس حالت میں گھر میں موجود کام کرنے والوں کی نظروں سے بچنے کے لیے براہ راست گھر نہیں جانا چاہتی تھی، اس لیے میں پارک کی طرف گئی اور وہاں سے میں نے اپنے والد کے ایک ساتھی کو فون کیا جو مجھے گھر لے آئے۔"
مذکورہ واقعے پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں دفعہ 365، 354، 506 اور 34 دیگر کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
افغان سفیر کی صاحبزادی سے متعلق سوشل میڈیا پر افواہوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ایک ٹک ٹاکر کی زخمی حالت میں تصویر کو افغان سفیر کی صاحبزادی کہہ کر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا جس کے بعد ہفتے کی رات افغان سفیر نجیب علی خیل نے اپنی بیٹی کی تصویر ٹوئٹر پر جاری کی اور دیگر تمام تصاویر کی تردید کی۔
داسو واقعہ کی تحقیقات بھی جاری
داسو واقعے کے حوالے سے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ مل کر داسو واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، جس میں پاکستان کی ایجنسی اور چینی ٹیم کے 15، 15 افراد شامل ہیں۔ چینی وفد نے تحقیقات میں پاکستان کے تعاون کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا اور آپ کا بیانیہ ایک ہونا چاہیے۔
شیخ رشید نے الزام عائد کیا کہ بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس کام کے لیے اپنا میڈیا استعمال کرتا ہے۔
اسلام آباد اور دیگر شہروں میں موجود چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے شیخ رشید نے کہا کہ جو بھی چینی شہری سیکیورٹی کے لیے درخواست دے گا ہم اسے سیکیورٹی فراہم کریں گے۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ کل اس بات کو اچھالا گیا کہ داسو میں کام بند ہو گیا ہے تو رات گئے کمپنی نے بیان جاری کر کے بتا دیا کہ پاکستانی وہاں کام کر رہے ہیں اور کام بھی جاری رہے گا۔
اُن کے بقول سی پیک اور ڈیمز کے منصوبوں پر کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا۔ چین کی حکومت بخوبی سمجھتی ہے کہ ہم اپنی بساط سے بڑھ کر اپنی ذمے داری ادا کر رہے ہیں اور چین نے پاکستان کی ایجنسیوں کی تفتیش اور وزارتِ داخلہ کی میزبانی پر شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
داسو ڈیم منصوبے پر چینی کمپنی کے پاکستانی ملازمین بحال
داسو میں کام کرنے والے ملازمین کی فراغت کے بارے میں کمپنی کی طرف سے جاری ایک خط میں تمام ملازمین کو 15 دن کی تنخواہوں کے ساتھ فارغ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ لیکن ہفتے کی شام کمپنی کی طرف سے ایک اور خط سامنے آیا جس میں بتایا گیا کہ ملازمین کے کانٹریکٹ منسوخی کا پہلا نوٹی فکیشن حکام کی منظوری کے بغیر جاری کیا گیا تھا لہٰذا وہ نوٹی فکیشن منسوخ کیا جاتا ہے۔
داسو ڈیم پر کام کرنے والے پاکستانی ملازمین کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب ہے۔ ان میں سے بیشتر ملازمین کانٹریکٹ کے بنیاد پر کام کر رہے ہیں اور ان کی تنخواہ 20 سے 25 ہزار کے درمیان ہے۔
واپڈا کی ویب سائٹ کے مطابق 4320 میگاواٹ کا یہ منصوبہ دریائے سندھ پر داسو ٹاؤن سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس ڈیم کی اونچائی 242 میٹر ہے۔
بس حادثے میں زخمی اور ہلاک ہونے والے چینی اہل کار اسی کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے۔
سن 2017 میں شروع ہونے والا یہ ڈیم فروری 2023 میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔