مچھلی اور سمندری حیات کی دیگرکئی اقسام انسانی غذا کا اہم حصہ ہیں۔ آبادی اور آمدنیوں میں اضافے سےمچھلی کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی رسد ، طلب کے مطابق نہیں بڑھ سکی، جس کی وجہ مچھلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے کی جانب توجہ نہ دی گئی تو آئندہ عشروں میں انسانی خوراک کے اس اہم ذریعے میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
یونیورسٹی آف یارک،نگلینڈ کے ماحولیاتی سائنس کے شعبے کے زیر اہتمام کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ برطانیہ کے مچھلیاں پکڑنے والی کشتیاں سالانہ تقربیاً ڈیرھ لاکھ ٹن مچھلیاں پکڑتی ہیں جو آج سے لگ بھگ سوسال پہلے کی تعداد کا نصف ہے ۔
تحقیق کے مطابق 1880 ء کے عشرے میں برطانوی ٹرالے، جن کے پاس آج کے دور جیسی جدید ٹیکنالوجی موجودتھی، اور نہ ان کے جال اتنے بڑے اور مضبوط تھے جتنا کہ آج کل ہیں، اور نہ ہی سمندر میں وہ اتنی دور تک جاکر ماہی گیری کرتے تھے جیسا کہ آج کل کی جارہی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ موجودہ زمانے کے مقابلے میں دگنی مچھلیاں پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ جس کی وجہ مچھلیوں کی بہتات تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ دور کی ماہی گیری کا موازنہ سو سال پہلے کے حالات سے کیا جائے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے مچھیروں کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے 17 گنا زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگرچہ مچھلیاں پکڑنے کی ٹیکنالوجی اس دور کے مقابلے میں آج 50 گنا زیادہ بہتر ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مچھلیوں کی کئی قسمیں نایاب ہوتی جارہی ہیں ، خاص طورپر ہالیبٹ(halibut)،جسے پکڑنے کے لیے اب مچھیروں کو ایک صدی پہلے کے مقابلے میں500 گنا زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے۔
یونیورسٹی آف یارک کے سائنس دان اس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ بہت بڑے پیمانے پرماہی گیری ہے۔ اور اگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا ہے تومستقبل میں مچھلیوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس تحقیق کی قیادت روتھ تھرسٹن نے کی۔ وہ کہتی ہیں کہ نہ صرف سمندروں سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کی تعداد عمومی طورپر کم ہوئی ہے بلکہ کچھ خاص اقسام کی تعداد 94 فی صد تک کمی آچکی ہے۔
یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی اس تحقیق کے لیے معلومات سمندری حیات کے تحفظ کی سوسائٹی اور برطانوی حکومت کے ریکارڈ سے حاصل کیں۔ ریکارڈ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ 1889میں ماہی گیر جتنی مچھلی انگلیڈ اور ویلز میں لاتے تھے، اب اس کی مقدار تقریباً ایک چوتھائی ہوچکی ہے۔
روتھ تھرسٹن کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ماہی گیری سے مچھلیوں کی تعداد اور ان کی کئی اقسام کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے، جتنا کہ پہلے سوچا جارہاتھا۔
تحقیق میں شامل ایک اورسائنس دان پروفیسر کالم رابرٹس کہتے ہیں کہ صرف برطانیہ میں ہی پکڑی جانے والی مچھلیوں کی مقدار کم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ واقع دوسرے یورپی ممالک میں بھی، جو آس پاس کے سمندری علاقوں سے مچھلیاں پکڑتے ہیں، صورت حال اندازوں سے کہیں ابتر ہوچکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم مچھلیوں کے ذخیرے قائم کریں تاکہ ہم سمندرسے زیادہ عرصے تک باآسانی اپنی ضرورت کے لیے مچھلی حاصل کرسکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سمندری دولت کوبینک ا کاؤنٹ کی طرح احتیاط کےساتھ استعمال کرنا چاہیے ۔یعنی جس طرح بینک اکاؤنٹ میں رقم رکھنے سے آپ کو اس پر منافع ملتا ہے، اسی طرح مچھلیوں کے ذخیرے یا اکاؤنٹ بنانے سےان کی افزائش میں اضافہ ہوگا۔
یہ تحقیق جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔