سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مچھلی کے تیل میں پایا جانے والے اومیگا تھری ایسڈز دل کی بیماری میں مبتلا افراد کی زندگی کے دورانیے میں اضافے میں مدد دے سکتے ہیں۔ لیکن ایک نئی تحقیق سے یہ پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ اومیگا تھری سے کس طرح دل کی شریانوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی ڈاکٹر رامین فرزانہ فر کہتی ہیں کہ دل کی بیماری میں شریانوں کے اندرونی حصے میں گاڑھے مادے جم جاتے ہیں اور دل کی جانب خون کے بہاؤ میں رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں۔
دل کی شریانوں کی بیماری دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بہت سے جائزوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ٹھنڈے پانی کی مچھلیوں، ٹونا، سامن اور دوسری چکنی مچھلیوں میں چربیلے مادے اومیگا تھری موجود ہوتے ہیں جو اس بیماری کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب تک کسی کو بھی صحیح طور پر یہ علم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رامین نے یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی کہ آیا خلیوں کی عمر میں اضافے اور اومیگا تھری ایسڈز کے درمیان کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ جن مریضوں کے خون میں مچھلی کے تیل میں پائے جانے والے اومیگا تھری ایسیڈز کی سطح زیادہ تھی، ان کے خلیوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ بوسیدگی کے قدرتی عمل کی رفتار بظاہر سست تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ انسانی خلیوں کے مرکزے میں واقع کروموسومز کے آخری سرے پر واقع ٹیلومیر (Telomere) کی لمبائی میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کمی آنے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جوتوں کے تسموں کے سرے پر پلاسٹک کی چھوٹی سی نلکی لگی ہوتی ہے جو تسموں کی ڈوری کو کھلنے سے روکتی ہے۔ بالکل ایسے ہی ٹیلومیر کروموسوم کے دونوں سروں پر لگے ہوتے ہیں اور وہ کروموسوم کی ساخت کو برقرار رکھتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس ٹیلومیر کی لمبائی گھٹتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے کروموسوم کی ساخت برقرار نہیں رہ سکتی اور انسان مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر رامین اور ان کے ٹیم نے دل کے چھ سو مریضوں کے خون کے خلیوں میں موجود ٹیلومیر کی لمبائی کی پیمائش کی۔ وہ کسی مخصوص مدت کے دوران اومیگا تھری ایسڈز اور ٹیلومیر کی لمبائی میں تبدیلی کے درمیان کسی تعلق کا پتا چلانا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر رامین کہتی ہیں کہ جن مریضوں میں مچھلی کے تیل میں موجود اومیگا تھری ایسڈز کی مقدارسب سے زیادہ تھی، ان کے ٹیلومیر کی لمبائی میں کمی واقع ہونے کی رفتار سب سے کم تھی۔جب کہ جن مریضوں کے خون میں اومیگا تھری ایسڈز کی مقدار سب سے کم تھی، ان کے ٹیلومیر کی لمبائی کم ہونے کی رفتار سب سے زیادہ تھی۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان مریضوں میں عمر کے بڑھنے کے ساتھ قدرتی بوسیدگی کا عمل اس گروپ سے زیادہ تھا جن کے خون میں اومیگا تھری کی مقدار زیادہ تھی۔
ڈاکٹر رامین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی اس سفارش کی تائید کرتے ہیں کہ دل کی شریانوں کی بیماری میں مبتلا افراد کو دن میں کم از کم ایک گرام اومیگا تھری استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے ماہرین کا یہ خیال تھا کہ صرف باقاعدہ ورزش اور ذہنی دباؤ پر قابو پانے سے ٹیلومیر کو صحت مند رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس نئی تحقیق کے مطابق چکنی مچھلی کھانے یا اومیگا تھری کا استعمال بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
کلیولینڈ کلینک کے ڈاکٹر مائیکل روئیزن کہتے ہیں کہ کم از کم ان سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی کے دورانیے کو بڑھانے اور معذوری کو امکانی طور پر کم کرنے کا ایک خطرے سے پاک طریقہ ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اومیگا تھری صرف دل کی بیماری کے مریضوں کے لیے ہی فائدہ مند نہیں ہیں بلکہ انہیں جوڑوں کی سوزش کم کرنے، حافظہ خراب ہونے کی رفتار گھٹانے اور مالیکیولز کے انحطاط کے عمل کو سست کرنے سے بھی منسلک کیا گیا ہے جو بڑی عمر کے افراد میں نابینا پن کی ایک سب سے عام وجہ ہے۔
مقبول ترین
1