رسائی کے لنکس

پہلے سعودی سفیر کی رملہ آمد، آیا سعودی اسرائیل معاہدے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟


نئے سعودی سفیر نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو منگل کے روزاپنی اسناد پیش کیں۔ فوٹو اے پی 26 ستمبر 2023
نئے سعودی سفیر نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو منگل کے روزاپنی اسناد پیش کیں۔ فوٹو اے پی 26 ستمبر 2023

فلسطینی اتھارٹی کے لیے سعودی عرب کے نئے مقرر کردہ ایلچی نے منگل کو اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے اپنے پہلے دورے کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس کو اپنی اسناد پیش کیں، یہ دورہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی امریکی کوششوں سے منسلک ہے۔

سفیر نائف السدیری کے دورے کو، جو اردن میں سعودی سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، وسیع پیمانے پرمملکت کی جانب سے سعودی-اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے اہم نکتے کو حل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

سعودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اسی صورت میں معمول پر لائے گی جب فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف کوئی بڑی پیش رفت ہوتی ہے۔

اپنے دو روزہ دورے کےآغاز پر سعودی سفارت کار نے فلسطینی اتھارٹی میں ، جو مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری کا استعمال کرتی ہے، صدر عباس اور ر دیگر سینئر فلسطینی حکام سے ملاقات کی۔

السدیری نے عباس سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ "انشاء اللہ، یہ دورہ، ان سینئر فلسطینی حکام کے تعاون سے جو ہمارے تعلقات کے معمار ہیں، آنے والی چیزوں کا محض آغاز ہو گا۔"

تقریباً 16 سال قبل، عرب رہنماؤں نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں عرب امن اقدام کی توثیق کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ حل کے بغیر اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔

سعودی سفیر نے اپنی اسناد سفارت صدر عباس کو پیش کیں۔ فوٹو اے ایف پی
سعودی سفیر نے اپنی اسناد سفارت صدر عباس کو پیش کیں۔ فوٹو اے ایف پی

اگرچہ فلسطینی اب بھی مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی قبضے اور غزہ میں اسرائیل اورمصر کی ناکہ بندی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، تاہم حالیہ ہفتوں میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی سفارتی معاہدہ پیش رفت کرتا ہوا دکھائی دیا ہے۔

لیکن اس طرح کے کسی معاہدے میں کئی رکاوٹیں باقی ہیں۔ سعودی امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کے خواہاں ہیں اور اپنا سویلین نیوکلیئر پروگرام بنانے میں مدد چاہتے ہیں، جس سے ایران کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

سعودی عرب یہ بھی چاہتا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو کم از کم کسی قسم کی مراعات دے، جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مشرقی یروشلم اور غزہ کے ساتھ قبضہ کیا تھا۔

منگل کو رملہ میں، السدیری نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت میں، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو اپنے ملک کے موقف کا اعادہ کیا ۔

لیکن فلسطینیوں کو زیادہ خودمختاری دینے کی کسی بھی کوشش کو اسرائیلی وزیر اعظم ببنیامن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقتور کابینہ کے وزراء نے فلسطینی اتھارٹی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور کھلے عام مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ کیا ہے۔

منگل کے روز حکام دونوں حکومتوں کے درمیان زیرگفتگو مراعات کے بارے میں بالکل خاموش تھے۔ اس کے بجائے انہوں نے دونوں کے تعلقات کو سراہا۔

فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اس ملاقات کو ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ "وہ یہاں ہمارے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کا کام شروع کرنے آئے ہیں۔"

(یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔)

فورم

XS
SM
MD
LG