رسائی کے لنکس

پاک افغان سرحد پر فائرنگ بند، الزامات کا سلسلہ جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں تعینات سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے ایک دوسرے کی چوکیوں اور تنصیبات پر فائرنگ کا سلسلہ بدھ کو بند ہو گیا ہے۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے فوجیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ اتوار کی شام پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ کو ملانے والی گزرگاہ سے شروع ہوا تھا۔

افغانستان کے صوبۂ کنڑ کے گورنر کے ترجمان عبد الغنی موسمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ بند ہو گیا ہے۔

افغان حکام فائرنگ شروع کرنے کا ذمہ دار پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو ٹہرا رہے ہیں۔ دوسری جانب منگل کو پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے افغانستان کے فوجیوں پر فائرنگ شروع کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ فائرنگ سے چھ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامّہ کے بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغان فورسز کی فائرنگ کے جواب میں سرحد پار چوکیوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔

تاہم سرحدی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی محدود رسائی کے باعث آزاد ذرائع سے دونوں ملکوں کے سرکاری اداروں اور عہدے داروں کے دعووں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے سرحدی چوکیوں پر فائرنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں کی آبادی پر گولہ باری کی سخت مذمت کرتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کے رہنما دونوں ہمسایہ ملکوں کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کے مشورے دیتے ہیں۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرنی چاہیے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکریٹری جنرل سردار حسین بابک نے دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں کشیدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد (ڈیورنڈ لائن) پر دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ گزشتہ 70 برسوں سے جاری ہے۔ کیونکہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG