اس ماہ کے آغاز پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو فوٹیج کی جس میں افغان پناہ گزینوں سے بھری ایک گاڑی کو جلتے ہوئے دکھایا گیا تھا، افغانستان میں وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ اس سے ایران میں افغانوں کی حالتِ زار پر ایک بار پھر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
ایران کے صوبہ یزد میں ایک گاڑی جس میں 13 افغان سوار تھے، جلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس واقعے میں تین افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔
ایران میں تعینات افغان سفیر عبدالغفور لیوال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایرانی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ایرانی پولیس نے گاڑی پر گولی چلائی جس سے چنگاریاں بھڑکیں اور گاڑی میں آگ لگ گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مقامی حکام اس واقعہ کی مکمل تفتیش کریں گے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کو شبہ تھا کہ گاڑی مییں منشیات اور بغیر دستاویزات کے پناہ گزیں ہیں۔ صوبہ یزد کے ڈپٹی گورنر، احمد تاراہومی کا کہنا ہے کہ ایک چوکی پر گاڑی کو روکا گیا اور نہ رکنے پر پولیس نے گولی چلائی۔
پچیس سالہ علی حسن کیلئے جلتی گاڑی میں سوار مسافروں کی چیخ و پکار اور ایک نوجوان کی فریاد کہ مجھے کچھ پانی دو میں جل رہا ہوں جیسے مناظر بہت دردناک ہیں، اور اسے افغانستان کے علاقے زارانج سے اصفہان تک کے آٹھ روزہ پُر خطر سفر کی یاد دلاتے ہیں۔
جلتی ہوئی گاڑی کے اس حادثے کی وجہ سے یورپ، امریکہ اور افغانستان میں مظاہرے ہوئے۔ افغانستان میں مظاہرین نے ایران مخالف نعرے لگائے اور ایرانی پرچم کو نظر آتش کیا۔
افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں احتجاج کرنے والے ایک فرد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان عوام اس حادثے کی ایک آزاد انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایران کی وزارتِ خارجہ نے افغان سفیر کو طلب کر کے مظاہروں کو افغانستان میں ایران کے سفارتی مشن کے خلاف جارحانہ اقدام قرار دیا۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی ایک اعلیٰ سطحی وفد ایران روانہ کرے گی، تاکہ ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کو روکا جا سکے اور سرحدی تحفظ کے معاملے پر بات کی جا سکے۔
افغانستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک دوست اور برادر ملک ہونے کے ناطے، افغان شہریوں سے تحمل اور رواداری سے پیش آئے۔
ایرانی پولیس کا افغان پناہ گزینوں کے خلاف تشدد کوئی نئی بات نہیں۔ افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ ایران کے سرحدی مفاحفظوں نے افغان پناہ گزیں مزدوروں کو گن پوائنٹ پر ایران اور افغانستان کے درمیان بہنے والے دریا میں زبردستی کودنے کو کہا، جس سے کم از کم بارہ افراد ڈوب گئے جبکہ 17 لاپتا ہیں۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، ایران میں اس وقت تین ملین افغان موجود ہیں، اور ان میں سے تقریباً نو لاکھ قانونی مہاجر ہیں۔ باقی بغیر دستاویزات یا دستاویزات کے ساتھ نقل مکانی کرنے والے لوگ ہیں۔
کابل میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں جب سے کرونا وائرس پھیلا ہے، ایران نے ہزاروں افغانوں کو زبردستی واپس افغانستان بھیج دیا ہے۔
ہرات میں ریفیوجی ری پیٹریئشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ، جاوید ندیم کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران ایران 400 سے 600 افغانوں کو روزانہ واپس بھیج رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ایران سے زبردستی واپس آنے والے افغان باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اپنی حفاظت کے پیشِ نظر اپنا اصل نام نہ ظاہر کرنے والے، حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان پناہ گزینوں کو ایران میں بہت سے تعصبات کا بھی سامنا ہے۔ ایرانی افغانوں کو لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ بقول حسن، ایرانیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ افغان ان کی ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ اس لئے وہ افغانوں سے برا برتائو کرتے ہیں۔
ایران میں تین سال تعمیراتی کام کرنے والے 35 سالہ محمد اسلم گرجستانی نے بتایا کہ ایران میں افغانوں کیساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا، اور ایرانی حکومت بھی افغان پناہ گزینوں کو نفرت پر مبنی جرائم سے تحفظ فراہم نہیں کرتی۔
ایرانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو ایران میں خوش آمدید کہا جاتا ہے، مگر سرحدوں پر افغانستان کے کنٹرول میں کمی اور اس کے ساتھ بڑھتی ہوئی انسانی سمگلنگ، بہرحال ایران کیلئے ایک مسئلہ ہے۔
ایران کے بین الاقوامی اور قانونی امور کے ڈپٹی وزیر خارجہ، محسن بہرمند نے چھہ جون کو خبر رساں ادارے ارنا کو بتایا تھا کہ ایران افغان شہریوں کا احترام کرتا ہے، مگر اُنہیں قانونی طریقے سے سرحد عبور کرنی چاہئیے۔