پاکستان کے صوبے پنجاب کے جنوبی شہر راجن پور اور مظفر گڑھ کے سرحدی علاقے پر واقع بستی لاشاری میں چند دن پہلے زہریلی لسی پینے سے مرنے والے افراد کی تعداد 15 ہوگئی ہے۔
حکام کے مطابق واقعے کے بعد ملتان کے نشتر اسپتال میں زیرِ علاج ایک سات سالہ بچی بھی دم توڑ گئی ہے جب کہ مزید تین افراد انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر مظفر گڑھ محمد اویس نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے واقعہ 24 اکتوبر کو پیش آیا تھا جب ایک خاندان اور بستی کے کچھ دیگر افراد کی حالت زہریلی لسی پینے سے غیر ہوگئی تھی جس میں ملزمہ آسیہ بی بی نے چوہے مار زہر ملایا تھا۔
ڈی پی او مظفر گڑھ کے مطابق ملزمہ نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔ واقعے کا مقدمہ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے تھانہ قندائی میں درج کیا گیا ہے جس پر کارروائی کی جارہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر راجن پور اشفاق احمد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زہریلی لسی پینے والوں کی تعداد 27 تھی جس میں سے ابتدائی طور پر 13 افراد چل بسے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں آٹھ مرد، تین خواتین اور دو بچے شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ لسی کو فرانزک ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھجوایا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ لسی میں زہریلا مواد شامل تھا۔
اشفاق احمد نے بتایا ہے کہ زہریلی لسی سے متاثرہ افراد کو راجن پور اور مظفر گڑھ کے اسپتالوں میں لایا گیا تھا جہاں حالت نہ سنبھلنے پر انہیں نشتر اسپتال ملتان منتقل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ 12 افراد تا حال زیرِ علاج ہیں جن میں سے تین کی حالت تشویش ناک ہے۔
کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈویژن احمد علی کمبوہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ملزمہ آسیہ بی بی کی شادی رواں سال ستمبر میں امجد نامی شخص سے کی گئی تھی جو اس کی مرضی کے خلاف تھی۔
کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے مطابق آسیہ بی بی اسی متاثرہ خاندان کی بہو ہے جس کے سب سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
احمد علی کمبوہ نے بتایا کہ ملزمہ آسیہ نے صبح سویرے خود لسی تیار کی اور اس میں زہریلا مواد شامل کر دیا اور یہ لسی ملزمہ آسیہ کے اپنے خاندان کے افراد کے علاوہ بستی کے کچھ اور لوگوں نے بھی پی تھی۔
متاثرہ خاندان کے ایک فرد نجیب اللہ نے وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ اس واقعے پر انتہائی غم زدہ ہیں لیکن وہ کسی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ ان کے بقول یہ ان کا گھریلو معاملہ ہے۔