وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف ریاست کی جانب سے مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اس مقدمے کا حکم حسین حقانی کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاری کارروائی کے دوران عدالت عظمیٰ نے دیا تھا، جس کے حوالے سے ایف آئی اے نے عدالت کی گذشتہ سماعت پر آگاہ کیا تھا کہ حسین حقانی کو وطن واپس لانے اور انٹرپول کی مدد حاصل کرنے کے لیے جلد مقدمہ کا اندراج کرلیا جائے گا۔
اسلام آباد میں ایف آئی اے کی پولیس سٹیشن میں درج ہونے والی اس ایف آئی آر کا نمبر 07/2018 ہے، جس میں چھ مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
درج کی جانے والی ایف آئی آر میں دفعہ ,4,409, 420,109 اور ’پریونشن آف کرپشن ایکٹ‘ کی دفعہ 5(2) 47 کے تحت مقدمہ کا اندراج کیا گیا ہے۔
ان دفعات میں کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال، دھوکہ دہی اور بیرون ملک مقیم پاکستانی کا جرم میں شامل ہونے سے متعلق دفعات شامل ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق، مقدمہ راولپنڈی ایف آئی اے کے انسداد بدعنوانی سرکل نے انکوائری کے بعد درج کیا ہے۔ اس انکوائری کا نمبر آر ای32/18 ہے، انسداد بدعنوانی سرکل میں درج مقدمے کے باقاعدہ اندراج کے بعد ایف آئی اے ملزم کی گرفتاری میں مدد کے لیے انٹرپول کو ریڈ وارنٹ کے اجرا کا عمل شروع کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 15 فروری 2018 کو میموگیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سابق سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ عدالت عظمیٰ میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے بتایا تھا کہ حسین حقانی کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لیے انٹرپول کو مراسلہ لکھا جاچکا ہے۔
حسین حقانی کا نام میمو گیٹ سکینڈل میں سامنے آیا جس میں 2011 میں پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔
اس متنازعہ میمو میں مبینہ طور پر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنا چاہی تھی۔
اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ حسین حقانی اس دوران کمیشن اور عدالت کو وطن واپس آنے کا وعدہ کرکے بیرون ملک چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔
ان کے جانے کے بعد جاری ہونے والی جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔
میمو کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک بار پھر کھل چکا ہے اور اس حوالے سے عدالت نے حسین حقانی کو گرفتار کرکے وطن واپس لانے کے لیے واضح احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں۔