پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان مخالف مواد پھیلانے سے دور رہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سوشل میڈیا پوسٹس نفرت انگیز اور ملک کے خلاف نہیں ہونی چاہیئں۔
ایف آئی اے نے اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستان کے صحافی سمیع ابراہیم کو ریاست مخالف ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹس پر تفتیش کے لیے طلب کیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے کے مطابق اگر انکوائری میں وہ اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہے تو کیس ختم کر دیا جائے گا بصورت دیگر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اگر وہ بیرون ملک رہے تو ان کے خلاف ریڈ نوٹسز جاری کرکے انٹرپول کے ذریعے انہیں وطن واپس لایا جائے گا اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا جائے گا۔
دوسری جانب سمیع ابراہیم نے ایف آئی اے کے نوٹس کے حوالے سے اپنے ایک وی لاگ میں کہا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
سمیع ابراہیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ ان کے بقول وہ ملک واپس آ کر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گے۔
پاکستان میں صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اس صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب پیکا سیکشن 20 کو اسلام آباد ہائی کورٹ ختم کر چکی تو اب کن قوانین کے تحت صحافیوں کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے قوانین کا احترام کیا ہے اور خود کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھا۔ سمیع ابراہیم کو قانون کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔
نجی ٹیلی ویژن چینل ’بول‘ سے منسلک سمیع ابراہیم کے حوالے سے ہفتے کو خبریں سامنے آئی تھیں کہ انہیں ایف آئی اے نے 13 مئی کو طلب کیا ہے۔
اس کے بعد مختلف میڈیا چینلز پر اس بارے میں خبریں سامنے آئیں کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
اتوار کو ایف آئی اے کی طرف سے اس بارے میں وضاحتی پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ سمیع ابراہیم کے خلاف ابھی صرف انکوائری ہو رہی ہے اور اگر انکوائری کے دوران وہ اپنے دفاع میں کامیاب رہے تو یہ انکوائری ختم کر دی جائے گی بصورت دیگر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ایف آئی اے کی پریس ریلیز میں سمیع ابراہیم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں اور فوج کے اہل کاروں کو بھڑکا کر بغاوت کی کوشش کررہے ہیں۔ بیرونِ ملک رہتے ہوئے سمیع ابراہیم پاکستان میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ انہیں موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ تفتیش میں اپنا دفاع کریں اگر وہ اس میں کامیاب رہے تو انکوائری ختم کر دی جائے گی۔ البتہ ان کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی اور جرم سرزد ہوا ہے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت بیرونِ ملک مقیم ہیں اور ان کے واپس نہ آنے کی صورت میں انٹرپول کے ذریعے ریڈ نوٹس جاری کیے جائیں گے اور ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے گا۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک رہنے والے کو پیکا ایکٹ 2016 پڑھنا چاہیے کہ ان کی پوسٹس پاکستان کے قوانین کے خلاف نہ ہوں۔ اگر بیرون ملک مقیم کسی پاکستان نے ایسا جرم کیا تو اس کے خلاف انٹرپول کے ذریعے ان کے گرفتاری کے لیے ریڈ نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے۔
ایف آئی اے نے بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں سے بھی پاکستان میں بدامنی کی کوشش ،فیک نیوز اور فیک ویڈیوز پھیلانے کی کوشش پاکستانی قوانین کے مطابق قابل گرفت ہیں اور ایسے شخص کو جب بھی ممکن ہوا گرفتار کیا جائے گا لہٰذا تمام پاکستانی ایسی باتوں سے گریز کریں۔
اس بارے میں سینئر صحافی اور پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے قوانین کا احترام کیا ہے اور کبھی خود کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھا۔
سمیع ابراہیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کو ایک ادارے کی طرف سے شکایت پر نوٹس جاری کیا گیا ہے ،جس میں سمیع ابراہیم کو صفائی کا پورا موقع دینا ضروری ہے۔ اگر سمیع ابراہیم کے ساتھ زیادتی ہوئی یا ماورائے قانون سلوک کیا گیا تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب پی ایف یو جے کے دوسرے دھڑے کے صدر رانا عظیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں آزادیٴ صحافت پر ہر دور میں حملے ہوئے لیکن حالیہ ادوار میں زیادہ حملے ہو رہے ہیں۔ اس بار صرف سمیع ابراہیم نہیں بلکہ بیرونِ ملک مقیم تمام پاکستانیوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے آزادیٴ اظہار رائے کا مطالبہ کیا تو ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں گے اور ریڈ نوٹسز کے ذریعے گرفتار کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ یہ سب احکامات حکومت کی طرف سے ایف آئی اے کو جاری کیے جا رہے ہیں اور اب وہ ان کے خلاف سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔
رانا عظیم نے بتایا کہ 13 مئی کو ایف آئی اے کے سامنے سمیع ابراہیم پیش نہیں ہو رہے بلکہ ہم صحافی ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قطعی طور پر قابل قبول نہیں کہ وہ پاکستانی جو بیرون ملک سے سرمایہ پاکستان میں بھیجتے ہیں انہیں دھمکیاں دی جائیں کہ ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں گے۔ وہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے سپریم کورٹ تک جائیں گے۔ آزادیٴ اظہارِ رائے یہی ہے کہ ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے پیکا ایکٹ کے تحت کیسے کارروائی کرسکتی ہے۔ اس کا سیکشن 20 سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہوتے ہوئے ایف آئی اے ایسے کیسے نوٹس جاری کرسکتی ہے؟
اپوزیشن جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے رانا عظیم کا کہنا تھا کہ اگر صورتِ حال ایسے ہی جاری رہی تو سابق وزیرِ اعظم عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیں یا نہ دیں، پاکستان کے صحافی اسلام آباد میں دھرنا ضرور دیں گے۔