رسائی کے لنکس

وفاقی حکومت کا جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف جوڈیشل کونسل میں جانے کا اعلان


وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والے خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا اعلان کیا ہے۔

وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ’’جسٹس وقار سیٹھ مینٹلی ان فٹ ہیں۔ انہیں کام کرنے سے فوری روک دیا جائے۔‘‘

فروغ نسیم نے کہا کہ ’’سر عام پھانسی کی انسانی اور مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔ کسی جج کو لاش لٹکانے کا فیصلہ دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ جج وقار سیٹھ نے بہت غلط آبزرویشن دی ہے‘‘۔

اسلام آباد میں اس فیصلے کے حوالے سے معاونین خصوصی فردوس عاشق اعوان اور شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف سے متعلق خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’قانون نافذ کرنے والے اگر پرویز مشرف کو گرفتار نہ کر سکیں تو ان کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔

ان کے بقول، "سرعام پھانسی کی انسانیت اور مذہب میں کوئی گنجائش نہیں، اور کسی جج کو لاش لٹکانے کا فیصلہ دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ جج وقار سیٹھ نے بہت غلط آبزرویشن دی ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ مینٹلی ان فٹ ہیں۔ انہیں کام کرنے سے فوری روک دیا جائے۔"

فروغ نسیم نے کہا کہ ’’تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور یہ چیز تضحیک آمیز ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جج نے ایسا فیصلہ کیوں دیا۔ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرے گی۔"

بقول ان کے، ’’جسٹس وقار سیٹھ کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ہونے کا حق نہیں‘‘۔

معاون خصوصی احتساب، شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اداروں نے بھی قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے۔ ’’لیکن، پرویز مشرف کیس کے تفصیلی فیصلے کے پیرا 66 میں تمام قانون کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ آج کا تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد بحیثیت قانون کے طالب علم میرا سر شرم سے جھک گیا اور بالخصوص پیرا 66 پوری دنیا میں شرمندگی کا باعث ہے‘‘۔

شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ’’فیصلے کے آخری محرکات کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کن قواعد و قانون کے تحت یہ آبزرویشن دی گئی اور فیصلے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 4 سطری پیراگراف کہاں سے آیا۔ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ کیا غداری صرف ایک بندے نے کی؟ ہم اور لوگوں کو بھی اس کیس میں لانا چاہتے ہیں‘‘۔

معاون خصوصی احتساب نے کہا کہ ’’جسٹس وقار سیٹھ کے ہاتھوں میں اور بھی بہت سارے بے گناہ لوگوں کی زندگیاں ہیں۔ فیصلے سے کیس کو خراب کر کے کچھ لوگوں کو فائدہ دیا گیا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ عدلیہ پر خودکش حملہ اور شرعی قوانین اور بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی حکومت کو تفصیلی فیصلے سے اور بھی تحفظات ہیں اور اس کے خلاف اپیل بھی کریں گے‘‘۔

اس معاملے کو سازش قرار دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ ’’اس فیصلے سے پاکستان کو سیاہ دور کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز افتخار چوہدری نے خود بنائے تھے۔ ججز کی اہلیت انکے فیصلوں سے ناپی جاتی ہے۔ نہ جانے یہ کس نے لکھوایا ہے کہ لاش کو گھسیٹا جائے‘‘۔

خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ نے سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے سابق صدر کو سزائے موت دینے کے ساتھ کہا تھا کہ ’’اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں پاکستان لائے جائیں تو ان کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں تین دن کے لیے لٹکا دیا جائے‘‘۔

اس فیصلے کے بعد مختلف اداروں اور شخصیات کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ پاکستان فوج نے بھی پریس کانفرنس میں اس فیصلے اور بالخصوص اس کے پیرا 66 پر شدید تنقید کی ہے اور اسے مذہب اور تہذیب سے بالاتر قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ہونے والے رابطے میں بھی اس فیصلہ کے حوالے سے بات چیت کی گئی اور اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ حکومت نے فی الحال صرف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن، اس کے علاوہ کون سے اقدامات اٹھائے جائیں گے اور عدلیہ کی طرف سے دیے گئے فیصلے پر کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی، اس حوالے سے اب تک تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔ لیکن، اداروں کے درمیان تناؤ واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG