پارلیمان میں عددی اعتبار سے پاکستان کی چوتھی بڑی اور صوبہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کی ثالثی میں مذاکرات کے بعد سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے استعفے واپس لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کرے گی۔
ایم کیو ایم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کسی سے تصادم نہیں چاہتی بلکہ اپنے تحفظات کے ازالے کے لیے اسمبلیوں سے باہر آئی ہے۔
ایم کیو ایم کے ارکان نے پچھلے دنوں احتجاجاً سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔ پارٹی کا الزام ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن میں اسے نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کے کارکنوں کو لاپتا کیا جارہا ہے اور انھیں ماورائے عدالت ہلاک کیا جارہا ہے۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اس کی شکایات کو کسی بھی پلیٹ فارم پہ نہیں سنا گیا اور بار بار یقین دہانی کے باوجود اب تک کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے وہ مانیٹرنگ کمیٹی نہیں بنائی گئی جس پر آپریشن کے آغاز سے قبل سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ ایم کیو ایم کو اسمبلی میں رہنا چاہیے اور اس کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو سونپی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ مولانا فضل الرحمان ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کے لئے جلد کراچی آنے والے ہیں جب کہ وفاقی حکومت بھی کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی بنانے پر غور کر رہی ہے۔
کراچی میں ستمبر 2013ء سے رینجرز اور پولیس کا آپریشن جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں مشتبہ افراد ہلاک اور گرفتار ہوتے رہے ہیں اور بڑی مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوتا رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس آپریشن سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن اس کے خلاف ہو رہا ہے جبکہ سیاسی و عسکری قیادت بار بار یہ کہتی رہی ہے کہ یہ آپریشن بلاتفریق تمام شرپسندوں کے خلاف ہو رہا ہے اور کسی ایک جماعت یا گروہ کو ہدف نہیں بنایا جارہا۔