پاکستانی ٹیلی ویژن کی بنیادوں کو اپنی تحریروں سے مضبوط اور توانا کرنے والی فاطمہ ثریا بجیا انتقال کرگئیں۔ بدھ کی شام ٹی وی چینلز سے نشر ہونے والی ان کے انتقال کی خبر نے شو بزنس سے جڑے حلقوں میں افسردگی پھیلا دی۔ فاطمہ ثریا بجیا نے 85 سال کی عمر پائی۔ خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں جمعرات کی دوپہر سپردِ خاک کیا جائے گا۔
گو کہ کافی سالوں سے وہ قلم کو وقت نہیں دے سکی تھیں اور پیری و بیماری کے سبب گھر اور بستر تک محدود تھیں، لیکن جتنے سال بھی انہوں نے صفحہ قرطاس کے لئے وقف کئے وہ سالوں تک یاد رکھے جائیں گے۔ پی ٹی وی کی تاریخ ہمیشہ ان کے قلم کی احسان مند رہے گی۔
فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930 میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن سنہ 2007ء میں اپنی تحریروں کی بدولت عبداللہ دادابھائی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی۔
اپنے اسکول نہ جانے سے متعلق بجیا کا کہنا تھا کہ ’گھر والے بڑے بڑے اسکول کی فیس دے سکتے تھے۔ لیکن لڑکی ہونے کی وجہ سے گھر والوں کا خیال ہمارے بارے میں مختلف تھا۔ چنانچہ، ہمارے لئے گھر پر استاد رکھے گئے جو ہمیں پڑھاتے اور ادب آداب سکھاتے تھے۔ لیکن، باقاعدہ اسکول جانا نہیں ہوا۔“
فاطمہ ثریا بجیا 10 بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔ دو بہنوں اور ایک بھائی کا انتقال ان کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا، جبکہ آج یعنی بدھ 10فروری کو وہ خود بھی اس جہانِ فانی سے دوسرے جہاں کی جانب چلی گئیں۔
سنہ 2008 میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی کچھ یادوں میں اپنے اہل خانہ کا ذکر کچھ انداز میں کیا تھا:
”میرے خاندان کا تعلق حیدرآباد (دکن) سے ہے۔ پاکستان ہجرت کی تاریخ مجھے ازبر ہے کیوں کہ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی کا انتقال ہوا تھا اور 18 اکتوبر کو ان کے چہلم کے دن ہم پاکستان آئے تھے۔ ہمیں یہاں بلانے والے محمد میاں سومرو کے چچا تھے۔ وہ میرے نانا کے قریبی دوستوں میں تھے۔ میرے والد کے دوستوں میں پیر الٰہی بخش اور سابق گورنر جنرل غلام محمد تھے۔ ان حضرات نے ہمارے خاندان کی ہجرت میں اہم کردار ادا کیا۔“
اپنی ازدواجی زندگی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کی شادی حیدرآباد دکن میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کے یہاں 2 لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ لیکن، مختصر عرصہ ہی وہ زندہ رہیں۔ شوہر سے ان کی علیحدگی بھی سالوں پرانی تھی۔
بجیا نے 14 برس کی عمر میں 250 صفحات پر مشتمل ایک مکمل ناول تحریر کیا تھا، جس کی 1000 کاپیاں چھپیں تھیں۔ پھر جس دور میں انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا شروع کیا اس وقت ڈرامے کی ایک قسط کے صرف ڈھائی سو روپے انہیں ملا کرتے تھے۔حالانکہ بقول بجیا ”حیدرآباد دکن میں ان کے یہاں 60ملازم ہوا کرتے تھے۔“ ان باتوں کا ذکر مرحومہ اکثر اپنے انٹرویوز میں بھی کیا کرتی تھیں۔
فاطمہ ثریا کا پہلا ڈرامہ ’قصہ چہار درویش‘ تھا جو انہوں نے آج سے 51سال پہلے یعنی سنہ 1965میں لکھا تھا یعنی ملک میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے صرف ایک سال بعد۔
اس ڈرامے کے بارے میں بجیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈرامہ لکھنے سے ایک رات قبل انہوں نے 50منٹ کا پورا پلے خواب میں دیکھا تھا اور نیند سے بے داری پر اسے لکھنے میں انہیں صرف دو گھنٹے لگے تھے۔
’قصہ چہاردرویشن‘ اسلام آباد سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا جس نے خوب شہرت پائی۔ اس قدر کہ بجیا کو اس کے بعد مسلسل ڈرامے تخلیق کرنا پڑے۔’الف لیلیٰ‘، ’بنو عباس‘ وغیرہ اسی دور کے لازوال ڈرامے ہیں، جبکہ بجیا نے ٹیلی فلمز بھی لکھیں اور اس کا آغاز ’چندن کا پلنا‘ سے کیا تھا۔
بجیا کا یہ کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ہی مطبوعہ ناولز کو ڈرائی تشکیل کی صورت بخشی۔ مثلاً ’شمع‘، ’افشاں‘، ’عروسہ‘ اور ’تصویر کائنات‘ وغیرہ جن کی مصنفہ اے آر خاتون اور اسما خاتون تھیں۔ لیکن، انہیں بجیا نے ٹی وی ڈرامے کا روپ دیا اور امر کردیا جبکہ ’آگہی‘ اور ’انا‘ سمیت انہوں نے ایک سینکڑوں ڈرامے لکھے۔
بجیا ’پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن‘ سے بھی کئی سال تک وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں اور اسی عرصے میں انہوں نے ایک جاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ میں تخلیق کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کو 11 پاکستانی زبانوں میں متعارف بھی کروایا۔
ان خدمات کے عوض انہیں 1999ء میں جاپان کے شہنشاہ کی طرف سے خصوصی طور پر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ملکی ایوارڈز کی بات کریں تو انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت انگنت ایوارڈ مل چکے تھے۔