غیر قانونی رقوم کی ترسیل کی نگرانی سے متعلق ایک عالمی ادارے نے پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں دوبارہ شامل کرنے فیصلہ کیا ہے جن پر دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے نظر رکھی جاتی ہے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی معیشت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گا اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔
امریکہ کی جانب سے یہ مہم اس کی ان کوششوں کا حصہ ہے کہ پاکستان پر ان اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے اور ان سے اپنے مبینہ رابطے توڑنے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے جو ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت میں حملے کرتے ہیں۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے جتنا کچھ کر سکتا ہے کر رہا ہے۔
یہ اقدام پاکستان کے بینکاری کے شعبے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور غیرملکی سرمایہ کاری کی رہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے اپنے معاملات بہتر بنانے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔
امریکی عہدے داروں نے پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے، جو دہشت گردی کی فنڈنگ روکنے کے لیے کافی کچھ نہیں کر رہے، گذشتہ ہفتہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے رکن ممالک کے ساتھ لابنگ میں گذارا۔
دوسری جانب پاکستان نے اس اقدام سے بچنے کے لیے آخری منٹ تک اپنی کوششیں جاری رکھیں جو بار آور ثابت نہیں ہو سکیں اور جمعرات کی شام کو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس سے قبل چین، ترکی اور خلیج تعاون کونسل پاکستان کے خلاف امریکی تحریک کی مخالفت کر رہے تھے لیکن جمعرات کی شام چین اور خلیج تعاون کونسل نے پاکستان کے لیے اپنی حمایت واپس لے لی۔
روئیٹرز نے کہا ہے کہ ایک سینیر پاکستانی سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ فیصلہ جمعرات کی شام ہو گیا تھا اور ادارے کے سربراہ کی جانب سے آج کسی وقت پیرس میں اس بارے میں اعلان متوقع ہے۔
اگرچہ اس حوالے سے ایف اے ٹی ایف کی طر ف سے کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا ہے جبکہ پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی جمعے کو اپنے ٹوئیٹر بیان میں کہا کہ ' ایف اے ٹی ایف' کے فیصلےسے متعلق سرکاری طور پر کوئی اطلاع نہیں ہے۔ انہوں میڈیا سے بھی اس معاملے کو قیاس آرائی سے گریز کرنے کا کہا ہے جبکہ تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آتا ہے۔
دوسری طرف پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعے کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ انہیں' ایف اے ٹی ایف 'کے پیرس میں ہونے والے اجلاس فیصلے کا انتظار ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ (اسلام آباد کو) پاکستان کوواچ لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اختیار کیے گئےطریقہ کار پر شدید تحفظات ہیں جو ان کے بقول غیر معمولی اور ایف اےٹی ایف کے طے شدہ ضابطہ کار کے خلاف ہیں ۔"
محمد فیصل نے کہا کہ دہشت گردی سے متعلق فنڈز کی روک تھام اور انسداد منی لانڈرنگ سے متعلق پاکستان کی کوشش کے بارے میں امریکہ کےتحفظات کو پہلے ہی دور کیا جا چکا ہے۔
بعض مبصرین نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہا اگر پاکستان کا نام 'ایف اے ٹی ایف' کی واچ لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے تو اس کے پاکستان کی تشخص پر منفی اثر پڑے گا۔
پاکستان کی ایک کارروباری شخصیت امین ہاشوانی نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ" پاکستان کےبینکنگ کے نظام کی جانچ پڑتا زیادہ ہو سکتی ہے اور پہلے بھی زیادہ ہی ہو رہی ہے، اور کچھ نہیں ہوگا اس کا اس سے زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ دوسری طرف سے پاکستان کا امریکہ پر انحصار بھی کم ہو گیا ہے۔ تاہم ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیےاور امریکہ کے دباؤ میں ایسا نہیں کرنا چاہیے یہ ہمیں اپنے مفاد میں کرنا چاہیے۔"
حالیہ برسوں میں پاکستان کو ان کالعدم تنظیموں اور عناصر کے خلاف موثر کارروائی نہ کرنے پر تنقید کا سامنا رہا ہے جو مبینہ طور پر نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھیں۔
تاہم پاکستان کی حکومت کا موقف ہے کہ وہ ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں کی بلاتفریق نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے اور رواں ہفتے ہی پاکستان حکام نے صوبہ پنجاب میں حکام نے جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت کے تحت چلنے والے فلاحی اداروں کو سرکاری تحويل میں لے لیا گیا۔
سن 2015 میں پاکستان کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔