رسائی کے لنکس

آل پارٹیز کانفرنس میں فاٹا کے انضمام پر اتفاق نہیں ہو سکا


وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت فاٹا اصلاحات سے متعلق اجلاس۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت فاٹا اصلاحات سے متعلق اجلاس۔

اس کانفرنس کے اعلامیہ پر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے تو دستخط نہیں کیے لیکن جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، حامد الحق حقانی اور فاٹا کے سینیٹر شاہ جی گل آفریدی نے بھی دستخط کردیے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی فاٹا اصلاحات سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس میں فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔

اے این پی کے سربراہ اور کل جماعتی کانفرنس کے میزبان سربراہ اسفندیارولی کا کہنا تھا کہ دونوں راہنما ایک ٹکٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے دو مزے نہ لیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے زیرِ اہتمام فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام اور فاٹا اصلاحات سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ جب تک خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اتفاق نہیں ہوتا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ حکومت کی جانب سے دی گئیں فاٹا اصلاحات پر حکومتی اتحادیوں کا اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔

کانفرنس کے اعلامیہ میں حکومت سے فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں فوری ضم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے، جس کی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے مخالفت کردی۔

محمود خان اچکزئی نے کل جماعتی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ بد قسمتی سے پختون سیاسی جماعتیں پختونوں کے حقوق اور فائدے کے لئے کبھی متفق نہیں ہو سکیں۔ فاٹا کے مسئلے کو اتنا آسان نہ لیا جائے ۔ 1946 جب پاکستان کی تشکیل کا اعلان کیا گیا اس میں فاٹا شامل نہیں تھا ۔

پی پی پی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فاٹا کے عوام نے خود پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ آئین کے آرٹیکل ایک کے تحت فاٹا پاکستان کا حصہ ہے۔ فاٹا کے عوام کے ساتھ بہت ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں فاٹا میں ایف سی آر کے تحت کسی کا بھی گھر مسمار کیا جا سکتا ہے۔ فاٹا کے مسائل کا حل کے پی میں انضمام میں ہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ فاٹا میں چیف آپریٹنگ آفیسر کی تعیناتی برائی کی بنیاد تو بن سکتا لیکن مسائل نہیں ہوسکیں گے۔ فاٹا پس ماندہ نہیں ہے بلکہ اس کو پس ماندہ رکھا گیا ہے۔ یہی بات سامنے رکھ کر انضمام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جب تک فاٹا کے عوام کی رائے نہ ہو کوئی دوسری رائے مکمل نہیں ہے۔ فاٹا میں لینڈ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ ان سب معاملات کو دیکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ہمیں جہالت اور سورا کی رسم کو ختم کرنا ہو گا۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔

اس کانفرنس کے اعلامیہ پر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے تو دستخط نہیں کیے لیکن جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، حامد الحق حقانی اور فاٹا کے سینیٹر شاہ جی گل آفریدی نے بھی دستخط کردیے۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے میں تاخیر نہ کی جائے ۔ اگلے الیکشن میں فاٹا کو صوبائی سیٹیں دی جائیں۔ اسلام آباد کی بجائے پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ فاٹا تک بڑھایا جائے۔

XS
SM
MD
LG