رسائی کے لنکس

فریال شاہ : محبت کے پل صراط پر


پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن نے ہندو لڑکیوں سے جبراً شادی پرسخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اس معاملے میں ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔

پاکستان میں محبت کی شادی کرنے والوں میں سے بعض کو آج بھی ایک مشکل ترین ’پل صراط‘ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعدادوشمار نہیں کہ اب تک کتنے لوگوں نے یہ پل عبور کیا، کتنے ڈگمگائے یا کتنوں نے منزل پائی مگر یہ ضرور ہے کہ ملک میں ہر ماہ دو ماہ بعد کسی نہ کسی کو محبت کا ثبوت دینے کے لئے انگاروں پرمحبت کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

اس بار انگاروں پر محبت کا سفر طے کرنے کی باری شاید فریال بی بی کی ہے۔ فریال کا تعلق ضلع گھوٹکی سندھ کے ایک چھوٹے سے علاقے میر پور ماٹھیلو کے ایک ہندو خاندان سے ہے۔وہ بالغ ہے ۔ پچھلے مہینے یعنی فروری میں فریال کا کیس پہلی مرتبہ میڈیا کے ذریعے اس وقت سامنے آیا جب اس کے والدین نے رپورٹ درج کرائی کہ ان کی بیٹی رنکل کماری گھر سے غائب ہے ۔

رنکل کماری کے والدین اور خاص کر اس کے ماموں راج کمار کا کہنا تھا کہ انہیں نوید شاہ نام کے ایک نوجوان پر شک ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نوید شاہ نے ہی اس کی بھانجی رنکل کماری کو اغوا کیا ہے۔

اس درخواست کی خبرمیڈیا تک پہنچی تو گویا اسے پر لگ گئے۔ رنکل کے والدین نے میڈیا کو بیان دیا کہ میرپور ماتھیلو کے ہی ایک نوجوان نوید شاہ نے ان کی بیٹی کو بھڑکایا ، اسے گھرچھوڑنے پرزبردستی مجبور کیااور جب وہ نامانی تو اسے اغواکرلیا۔ یہی نہیں بلکہ نوید نے زبردستی رنکل سے اپناپیدائشی مذہب چھوڑ اکر اس کی مرضی کے خلاف جبراًشادی کرلی ہے۔

اس دوران فریال منظر عام پر آگئی۔ اس نے میڈیااور عدالت کے روبرو آکر بیان دیا کہ اس نے کسی کے دباوٴ میں آکر اپنا مذہب نہیں چھوڑا بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نوید سے شادی کی ہے۔ فریال کا یہ بھی کہنا ہے کہ قبول اسلام کے بعد اس نے اپنا نام رنکل کماری سے بدل کر فریال بی بی رکھ لیاہے۔

فریال کا گلہ ہے کہ شادی کے بعد اسے اور اس کے شوہر کو میڈیا، عدالتوں اور معاشرے میں رسوا کیاجارہا ہے۔ اسے اپنی مرضی سے اپنے شوہر کے ساتھ آزادنہ زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔فریال نے وضاحت کی کہ اس نے اپنی مسلمان سہیلیوں کے کہنے کے بعد مذہب اسلام کا باقاعدہ مطالعہ کیا جس کے بعد ہندو مذہب کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

نومارچ کو فریال شاہ کو سندھ ہائیکورٹ سکھر میں پیش کیا گیااس نے ایک مرتبہ پھر عدالت کو یہی بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور نوید شاہ سے پسند کی شادی کی ہے ۔ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا لیکن اب میری جان کو میرے ماموں سے خطرہ ہے، مجھے تحفظ فراہم کیا جائے۔

اسی دوران فریال شاہ کے رشتے داروں نے کراچی میں بھی ایک کیس دائر کردیا ۔اس کی سماعت کے لئے 12مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی۔ عدالت نے ایس ایس پی گھوٹکی پیر محمد شاہ کو احکامات دیئے کہ فریال شاہ اور ان کے شوہر نوید شاہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے اور 12 مارچ کو انہیں کراچی کی عدالت میں سماعت کیلئے پولیس کی نگرانی میں لے جایا جائے۔

اس سے ایک دن قبل یعنی گیارہ مارچ کو فریال نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں فریال نے پھر یہی فریاد کی کہ اسے تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس نے مرضی سے مذہب تبدیل کیا ، اپنی پسند سے نوید سے شادی کی اور اسی کے ساتھ وہ زندگی گزارنا چاہتی ہے ۔

پیر 12مارچ کوسندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد انور باجوہ نے فریال کو 26 مارچ تک شیلٹر ہوم بھجوادیا۔ عدالت کے حکم پر فریال کو پولیس کی بھاری سیکورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ فریال کے ماموں اور درخواست گزار راجکمارکے وکلا نور ناز آغا اور دیگر نے عدالت کو بتایا کہ فریال سخت خوف کی حالت میں ہے اور اس وقت آزادانہ بیان نہیں دے سکے گی اس لئے اْسے چند دن کے لئے دارالامان بھجوایا دیا جائے۔ اس کے شوہر سید نوید شاہ کے وکیل جنید فاروقی نے کہا کہ ان حالات میں آج ہی لڑکی کا بیان ریکارڈ کرکے اسے اپنی مرضی سے جانے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ دارالامان میں فریال اور اس کے شوہر کو قتل کردیا جائے گا ۔ اس پر عدالت نے دکلائل کی سماعت کے بعد فریال کو شیلٹر ہوم بھجوادیا جسے آئی جی سندھ سپریم کورٹ کے حکم پر 26 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے درخواست گزار نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ فریال نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تو وہ اسے قبول کرلیں گے۔

تیسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن نے بھی ہندو لڑکیوں سے جبراً شادی پرسخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اس معاملے میں ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ ادھر سندھ میں آباد ہندہ برادری نے بھی اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG