رسائی کے لنکس

صرف ’فیک نیوز بسٹر‘ ہی کافی نہیں ہے


وزارت اطلاعات نے پیر کے روز فیک نیوز یعنی سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو بے نقاب کرنے کے لئے ایک آفیشل ٹویٹر ہینڈل ’فیک نیوز بسٹر‘ کے نام سے لاؤنچ کیا ہے۔

اس ٹویٹر ہینڈل سے اب تک کل چھ ٹویٹس پوسٹ کی گئی ہیں جن میں متعدد جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ جیسے اپنی پہلی ہی ٹویٹ میں اس اکاؤنٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’سوشل میڈیا کا مقصد معلومات، تعلیم اور علم کو بانٹنا ہے۔ اسے سچائی پر مبنی ہونا چاہئے اور اسے درپردہ مقاصد کے حصول کے لئے جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو پھیلانے کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔ ورنہ اس پر اعتبار ختم ہو جائے گا۔‘‘

اس ٹویٹر ہینڈل پر اب تک کل چھ ٹویٹس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کی تردید کی گئی ہے جن میں ایک افواہ تو یہ تھی کہ حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ عمران کی اپنے پہلے شوہر خاور مانیکا سے ایک بیٹی کو وزیراعظم کی خصوصی معاون برائے خواتین مقرر کر دیا ہے اور دوسری افواہ یہ تھی کہ عمران خان کے قریبی دوست ذولفقار بخاری کی بہن ملیکا بخاری کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چئیرپرسن بنایا دیا گیا ہے۔

وزارت اطلاعات کے اس ’فیک نیوز بسٹر‘ ٹویٹر ہینڈل کا طرز یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر صارفین کی جانب سے پوسٹ کی گئی ’فیک نیوز‘ کے سکرین شارٹ ان کے سوشل میڈیا اکاونٹ، جس پر ان کی تصویر بھی نمایاں ہے، کے ساتھ پوسٹ کی جا رہی ہے۔

اس ٹویٹر اکاونٹ کے ایک دن میں اب تک تقریباً بائیس ہزار فالور بن چکے ہیں اور اس اکاونٹ پر سوشل میڈیا پر صارفین کل اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے اور ٹویٹر پر #FakeNews ٹرینڈ کرتا رہا۔

میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی کے بانی اسد بیگ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ پر پھیلنے والی حد سے زیادہ جھوٹی اور من گھڑت خبریں اگرچہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس بارے میں کچھ کیا جائے مگر حکومت کی جانب سے حقائق کی چھان بین کا کام اپنے ذمے لینا نہ صرف غیر معقول ہے بلکہ آزاد میڈیا کے لئے خطرناک بھی ہے کیونکہ ایسا جب بھی ہوتا ہے تو آزاد میڈیا کو نقصان ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کی مثال لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ سی این این کو فیک نیوز قرار دیتا ہے۔ ایسے ہی ہم کچھ میڈیا ہاؤسز جیسے ڈان اور جیو کے خلاف مزاحمت دیکھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ایسا اقدام خطرے کی گھنٹی بجانے کے مترادف ہے۔

جب وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری سے وائس آف امریکہ نے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم یہ بتائیں کہ یہ خبر جو من گھڑت ہے، اور نوٹی فیکیشنز جن کا سہارا لے کر ایک جھوٹی خبر گھڑی گئی ہے، اگر ہم اس کے بارے میں بتائیں گے تو اس سے صحافت کو کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ جب ایک جعلی خبر آئے گی، خصوصاً جب اس کی بنیاد جعلی نوٹی فیکیشنز پر رکھی جائے گی تو حکومت کا یہ کام ہے اس کی تصیح کرے، اور اسی کے مد نظر ہم نے یہ ٹویٹر ہینڈل بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ جو جھوٹی خبریں سوشل میڈیا سے خصوصاً آتی ہیں ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں صحافتی سٹینڈرڈ بہت نیچے چلے گئے ہیں اور اخبارات اور ٹیلی وژن سوشل میڈیا سے اٹھا کر خبر لگا دیتے ہیں تو ان کی بھی مدد ہو جاتی ہے کہ وہ محنت نہ کریں، ان کو کوئی بتا دے کہ یہ خبر صحیح نہیں ہے۔

اسد بیگ نے اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو بھی اپنی طرف سے حقائق کی چھان بین کو بڑھا دینا چاہئے۔ اکثر میڈیا اداروں کی انٹرنیٹ پر موجودگی بہت زیادہ ہے، ایسے میں انہیں سوشل میڈیا پر بھیلی ہوئی خبروں کی چھان بین میں زیادہ دقت نہیں ہونی چاہئے مگر ہم پھر بھی دیکھتے ہیں کہ اکثر میڈیا ادارے ایسی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔

اینکر اور تجزیہ نگار ضرار کھوڑو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ حقائق کی چھان بین کرنے والا ایسا اکاؤنٹ بنائے مگر کیا صرف اس پر حکومت مخالف ’فیک نیوز‘ ہی کی چھان بین ہو گی یا حکومت کے حق میں بنائی گئی ہوئی ’فیک نیوز‘ کی بھی تردید ہو گی؟

اس پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ٹویٹر ہینڈل حکومت کے معاملات اور ان سے متعلقہ خبروں کو ہی ہینڈل کرے گا۔

سماجی ورکر اور ڈیجیٹل رائٹس کی بانی نگہت داد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجائے اس کے کہ حکومت ٹویٹر پر لوگوں کو جھٹلائے، اسے قانون نافذ کرنا چاہئے۔ اگر کوئی فرد کسی اور کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلا رہا ہے اور اسے بدنام کر رہا ہے تو ایسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کام کرنا چاہئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے اس پر کہا کہ اس بارے میں متعلقہ قانون کا استعمال بھی کیا جائے گا مگر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قانون جھوٹی خبروں کی تردید اور حقائق کی درستی کے بعد ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ کوئی خبر جو جعلی طور پر سوشل میڈیا میں ڈالی گئی پہلے تو اس خبر کی تردید کرنا ضروری ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس پر کارروائی ہو سکتی ہے؟

تو ان کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر کارروائی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ہمارا سائبر لا ہے اس کے تحت یہ جرم ہے اور جن لوگوں ںے یہ جعلی ٹویٹس کی ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG