سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ 'فیس بک' نے کہا ہے کہ وہ 2020 کے امریکی انتخابات کے دوران امیدواروں کے وقت سے پہلے کامیابی کے اعلان، سرکاری نتائج تسلیم کرنے سے انکار اور ووٹرز کو ڈرانے دھمکانے جیسے عوامل سے نمٹنے کے لیے سیاسی اشتہارات پر الیکشن کے بعد ایک ہفتے کے لیے پابندی عائد کر دے گا۔
اس سلسلے میں فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ 3 نومبر کو امریکہ میں صدارتی انتخابات کی پولنگ کے اختتام کے بعد اس کے پلیٹ فارم پر سیاسی اشتہارات روک دیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ یہ پابندی انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے لگائی جائے گی۔
فیس بک کے مطابق یہ پابندی انتخابات کے بعد ایک ہفتے تک برقرار رہے گی اور صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس میں مزید توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
کمپنی کا منصوبہ ہے کہ ایسی سوشل میڈیا پوسٹس جو انتخابات کے نتائج پر شبہات پیدا کریں، اُن کے ساتھ سرکاری معلومات کے لنک لگا دیے جائیں گے تاکہ جعلی خبروں کا تدارک ہو سکے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے پہلے ہی ایسے پیغامات پر پابندی لگا دی ہے جو پولنگ کی جگہوں پر اسلحہ لے جانے کی ترغیب دیتے ہیں یا ووٹنگ کے عمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
فیس بک پر ایسے اشتہارات کی بھی ممانعت ہو گی جس میں صدر ٹرمپ ووٹنگ کے عمل کی نگرانی کے لیے اپنے حامیوں کو اپنی حالیہ ٹوئٹ میں 'ٹرمپ آرمی' کہتے ہوئے پولنگ پر نظر رکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ کمپنی نے 2020 کے انتخابات کی تیاری 2016 کے انتخابات کے بعد سے شروع کر دی تھی جب روسی جاسوسوں نے اس کا پلیٹ فارم امریکی سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا تھا۔
فیس بک حکام کے مطابق اس کے بعد دُنیا بھر میں 200 کے لگ بھگ انتخابات ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ فیس بک پر یہ تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ سیاسی اشتہارات کی درست جانچ پڑتال نہیں کرتی جس سے دُنیا بھر میں انتخابی عمل متاثر ہوتا ہے۔
اے پی کے مطابق جہاں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیاں اپنی پالیسیوں کو مزید مضبوط کر کے نافذ کر رہی ہیں وہیں انتخابات کے عمل کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔
ناقدین اور شہری حقوق کے کارکنان نے فیس بک کی نئی پالیسیوں کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے مگر ناقدین کے مطابق ان پالیسیوں کا اصل امتحان تب ہو گا جب فیس بک اُنہیں نافذ کرے گا۔