یوسف جمیل
انٹرنیٹ بالخصوص سماجی ویب سائٹس نے مُتنازع کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے زیرِ انتظام حصوں میں تقسیم کرنے والی حد بندی لائن یا لائن آف کنٹرول کو بڑی حد تک غیر متعلق اور غیر مؤثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ مقامی طور پر حد بندی لائن کو ' خونی لکیر' کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ۔ دونوں جانب بسنے والے کشمیری جو جغرافیائی اور جذباتی طور ایک دوسرے کے قریب ہونے کے باوجود مواصلاتي رابطوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوسوں دور تھے، اب قریب نظر آ رہے ہیں۔ کم سے کم وہ لوگ جو انٹرنیٹ سے آگاہ ہیں اور اس سے استفادہ بھی کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ پر دونوں طرف کی حکومتوں کا کنٹرول محدود ہے اور اسلام آباد اور نئی دہلی کے زیرِ کنٹرول کشمیر کے باشندے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک دوسرے کو ای میل، ؤاٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے نہ صرف ذاتی پیغامات پہنچاتے ہیں بلکہ فیس بُک، ٹوئیٹر اور دوسری سماجی ویب سائٹس پر سیاسی، سماجی اور ان کو کشمیریوں کی حیثیت سے درپیش مجموعي صورتِ حال پر تبادلہ خيالات کرتے ہیں جو اس سے پہلے مُمکن نہ تھا۔
بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں بسنے والے ہزاروں افراد فیس بُک پر حَد بندی لائن کی دوسری جانب رہنے والے کشمیریوں جن میں آزاد کشمیر اور گلگت، بلتستان خطے دونوں کے مکین شامل ہیں، کے دوستوں کی فہرست یا فرینڈز لِسٹ میں ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مُختلف امور پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور تقریبا" روزانہ باہمی دِلچسپی کے معاملات پر ویڈیوز اور تصاوير شیئر کرتے ہیں۔ ٹوئیٹر نے بھی کشمیر کے ان دونوں حصوں میں بسنے والوں بالخصوص ماہرینِ تعلیم، فنون و سائنس کے شعبوں میں سرگرم افراد، صحافیوں، قانون ساز اداروں کے ارکان، وکلاء اور سِول سوسائٹیز کے ممبران کو ایک دوسری کے قریب تر کر دیا ہے۔
دوستوں کے اِنتخاب میں مذہب، نسلیت ، سیاسی نظریئے یا وابستگی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ کئی کشمیری ہندو، جو پنڈت کہلاتے ہیں اور جن کی اکثریت وادئ کشمیر 27 برس پہلے شورش اور مقامی مسلمان نوجوانوں کی طرف سے بندوق اٹھائے جانے کے آغاز پرتشدد سے بچنے کے لئے نقلِ مکانی کر گئے تھے اور دوسری اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی سماجی ویب سائٹس کے ذریعے حد بندی لائن کی دوسری جانب کے ہم وطن کشمیریوں اور پاکستانی شہریوں کے رابطے میں ہیں ۔دونوں ماضی کی تمام تلخیوں اور سرحدوں پر موجود بھارت پاکستان افواج کے درمیان ساعتی مقابلوں سے دونوں ملکوں کے ما بین پیدا شُدہ تناؤ اور کشیدگی سے لا تعلق ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر تبادلہ خيالات کرتے ہیں اور دافعِ امراض کے انداز میں اُن معاملات اور مسائل کو، جو ستر برس پہلے مُنقسم ہوئے والے خطہ جنتِ نظیر کو مجموعی طور پر درپیش ہیں، سلجھانے کی سعی کے طور پر آراء پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
بسا أوقات اِن میں کسی بات یا مسئلے پر نوک جھوک بھی ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے کھلم کھلا اِختلاف بھی کرتے ہیں اور مباحثے تُرش و تلخ بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اگلے ہی لمحے وہ ایک دوسرے کے لیے مُروت نظر آتے ہیں۔
ایک کشمیری پنڈت اوتار کشن نے بتایا کہ جابل اور بے خبر رہنے سے بہتر ہے کہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو جان لیا جائے۔ فیس بُک استعمال کرنے والی ایک اور کشمیری زویا خان کا کہنا تھا کہ ہمیں تقسیم کرنے والی لائن سُکڑ کر رہ گئی ہے اور یہ ایک بہت بڑی بات اور خوش آئند تبدیلی ہے۔
نیز دونوں طرف کے سیاست دانوں کو لوگ ٹوئیٹر پر فالو کرتے ہیں۔ بھارتی کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور سب سے پُرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے کار گزار صدر عمر عبد اللہ کے لاکھوں فالورز میں کئی ہزار ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستانی کشمیر اور پاکستان میں رہتے ہیں۔ اسی طرح آزادی پسند قائدین سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کے فالورز کی ایک بڑی تعداد کا تعلق سرحد کی دوسری جانب کے کشمیر سے ہے۔ یہ تعلق یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ پاکستانی کشمیر کے کئی سیاست دانوں، انسانی حقوق کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی آئی کانز کو بھارتی کشمیر کے مکین ٹوئیٹر پر فالو کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ لوگوں کو اب آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاں چھپنے والے اخبارات، جرائد اور نیوز پورٹلز تک رسائی حا صل ہے، جو انہیں دونوں طرف کے حالات و واقعات سے بالخبر رکھتی ہے۔ یہ چیز خطے میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب کئے جانے سے پہلے ممکن نہ تھا اور لوگ سُنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے تھے اور دونوں ملکوں کی حکومتیں سیاسی مقاصد کے تحت پراپیگنڈہ کے ذریعے انہیں متاثر و مرعوب کرنے کی کوششیں کرتی چلی آئی تھیں۔
انٹرنیٹ بالخصوص سماجی ویب سائٹس کی وجہ سے مُنقسم خاندانوں کو بھی فائدہ مل رہا ہے۔ چونکہ نئی دہلی نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے درمیان ٹیلی فون رابطہ گذشتہ 27 برس پہلے منقطع کردیا تھا اور اس کی وجہ علاقے کی حفاظتی صورتِ حال بتائی گئی تھی، لوگ ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اپنی خوشیاں اور غم بانٹ رہے ہیں۔ اس کے لئے فیس بُک کا بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔
سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس دو طرفہ رابطے میں کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ تاہم وہ پبلک ڈمین پر دستیاب نیٹ کنٹنٹ یا مواد کا باریک بینی کےساتھ جائزہ لیتی ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس سے امن و امان اور مجموعی قومی سلامتی پر کیا اثرات مُرتب ہو سکتے ہیں۔