رسائی کے لنکس

سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی واپسی کی امید روشن: 'دعا ہے کوئی معجزہ ہو اور بھائی واپس آجائے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"میرے بھائی کے ساتھ دھوکہ ہوا جس کی وجہ سے وہ گزشتہ 11 برس سے سعودی عرب کی جیل میں ہے۔ لیکن اب امید بندھی ہے کہ شاید ہماری کبھی دوبارہ ملاقات ہوسکے گی۔"

یہ کہنا ہے کراچی کے شہری نذیر حسین کا جن کے بھائی ابوذر سعودی عرب کے شہر جدہ کی ایک جیل میں قید ہیں۔ نذیر کے بقول ان کے بھائی سعودی عرب میں ڈرائیور کی ملازمت کرتے تھے جو پاکستان واپس آ رہے تھے کہ ان کے سامان سے منشیات برآمد ہونے پر انہیں پکڑ لیا گیا۔

نذیر کے بقول ان کے بھائی کے دوست نے کچھ سامان پاکستان لانے کے لیے دیا تھا جس میں منشیات تھیں اور اسی جرم میں پہلے ابو ذر کو 16 سال قید کی سزا سنائی گئی جسے بعد میں موت کی سزا میں تبدیل کردیا گیا۔

یہ کہانی سعودی عرب کی جیلوں میں قید صرف ابوذر کی ہی نہیں بلکہ ایسی متعدد قیدی ہیں جو مختلف جرائم کے الزامات میں قید کاٹ رہے ہیں۔ تاہم سعودی عرب کے وزیرِ داخلہ پرنس عبدالعزیز بن سعود بن نائف کے حالیہ دورۂ پاکستان کے بعد ایسے خاندانوں کو امید ہو چلی ہے کہ ان کے پیارے واپس اپنے دیس آئیں گے۔

پرنس عبدالعزیز منگل کو ایک روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے اور اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان مختلف معاملات سمیت قیدیوں کے تبادلے پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ برس تحویل مجرمان کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت سعودی عرب میں سزا پانے والے افراد اپنی باقی سزائیں پاکستان کی جیلوں میں مکمل کرسکیں گے۔

'جرمانوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کئی پاکستانی سعودی عرب میں قید ہیں'

غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد 2555 ہے جن میں سے 30 فی صد سے زائد منشیات کی اسمگلنگ یا فروخت میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہیں جب کہ باقی دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔

سعودی عرب کی جیلوں میں قید کئی پاکستانی اپنی سزائیں مکمل کرچکے لیکن جرمانے کی رقوم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اب تک جیلوں میں ہی موجود ہیں۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے منیجر محمد شعیب کے مطابق سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے وہاں پکڑی جاتی ہے اور اس کے بعد زبان سے آگاہی نہ ہونے اور وکیل کی بہتر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سزائیں دے دی جاتی ہیں۔

محمد شعیب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی کابینہ نے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق معاہدے کی توثیق کردی ہے جس کے بعد امید ہے کہ اس میں تیزی آئے گی اور پاکستانی قیدیوں کو پاکستان منتقل کیا جائے گا تاکہ وہ اپنی باقی سزا اپنے ملک میں ہی مکمل کرسکیں۔

’سعودی عرب میں وکیل غیر جانبدار نہیں‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:38 0:00

سعودی وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان منگل کو ہونے والی ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق وزیرِ اعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان تحویل مجرمان کے معاہدے پر ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

محمد شعیب کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں منشیات کے کیسز میں گرفتار افراد کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ ان کے بقول بیشتر افراد بے گناہ ہوتے ہیں جنہیں اسمگلرز استعمال کرتے ہیں اور انہیں موت کی سزا ہوجاتی ہے۔

محمد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تحویل مجرمان کے معاہدے کی تفصیلات اب تک سامنے نہیں آسکیں لیکن اس یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا منشیات کے کیسز میں گرفتار افراد کی سزائیں پاکستان میں مکمل ہوں گی یا نہیں۔

سعودی جیل میں قید ابوذر کے بھائی نذیر کہتے ہیں " تحویل مجرمان کے معاہدے کے بعد امید تو بندھی ہے کہ ہمارے بھائی کو رہائی مل سکے گی لیکن ابھی تک منشیات کے کیسز کے حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔"

نذیر کہتے ہیں ان کے بھائی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جنہوں نے گیارہ سال سے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اور اگر سعودی عرب میں ان کی موت کی سزا پر عمل درآمد ہوا تو ہم تو آخری ملاقات بھی نہیں کرسکتے۔"

نذیر نے کہا کہ انہوں نے گزشہتہ گیارہ برسوں٘ کے دوران پاکستان کی ہر حکومت سے بھائی کی رہائی کے لیے درخواستیں کیں لیکن اب تک کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان کے بقول "اب تو بس دعا ہے کہ کوئی معجزہ ہو اور میرا بھائی واپس آجائے۔"

XS
SM
MD
LG