رسائی کے لنکس

مجرموں کی حوالگی معاہدے کی توثیق؛ 'سعودی عرب میں قید پاکستانی اب واپس آ سکیں گے'


حکومتِ پاکستان اور ملک میں سرگرم قیدیوں کے حقوق کی تنظیموں نے سعودی حکومت کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی توثیق کا خیر مقدم کیا ہے۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی صدارت میں منگل کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں پاکستان کے ساتھ سزا یافتہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔

پاکستان اور سعودی عرب نے سزا یافتہ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق معاہدے پر گزشتہ سال مئی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کے دوران دستخط کیے تھے جس کے تحت سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانی اپنی بقیہ سزا پاکستان میں پوری کر سکیں گے۔

وزیرِ اعظم کے نمائندۂ خصوصی برائے مشرق وسطی طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ سعودی کابینہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کی توثیق اہم پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں وہاں قید پاکستانیوں کی واپسی ممکن ہوسکے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کے اہلِ خانہ اپنے پیاروں کو دیکھ تک نہیں سکتے کیونکہ ان کے خاندان یہاں ہیں اور وہ ملنے کے لیے سعودی عرب نہیں جاسکتے۔

انہوں نے بتایا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں دہشت گردی، قتل اور منشیات جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کے علاوہ سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی وطن واپسی ممکن ہوسکے گی اور وہ اپنی بقیہ قید پاکستان کی جیلوں میں کاٹ سکیں گے۔

طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ عمران خان کے دورۂ سعودی عرب اور سعودی ولی عہد کے پاکستان آنے پر قیدیوں کی واپسی کا معاملہ اہم ترین نکتہ تھا جو کہ ان دوروں میں زیرِ بحث رہا اور ان کوششوں کے نتیجے میں اب اسے حتمی شکل مل گئی ہے۔

'دیگر خلیجی ممالک سے بھی قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کریں گے'

اس سے قبل 2019 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے کے دوران وزیرِِ اعظم عمران خان نے ان سے قیدیوں کی رہائی کی اپیل کی تو محمد بن سلمان نے فوری طور پر دو ہزار قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تاہم اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان کے دوران اعلان کردہ تعداد میں سے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی پاکستان آ چکی ہے جن میں سے دو سو سے زائد سزا یافتہ قیدی بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سعودی عرب سے سزا یافتہ پاکستانی قیدی بھی وطن واپس لائے گئے ہیں۔

سعودی کابینہ نے اپنے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کی توثیق کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان غیرقانونی نشہ آور اشیا اور اسمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں تعاون کے معاہدے کی بھی منظوری دے دی ہے۔

طاہر اشرفی نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کے دوران طے پانے والے معاملات پر پیش رفت ہو رہی ہے اور سعودی کابینہ نے قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان منشیات اور اسمگلنگ کی روک تھام میں تعاون کے معاہدوں کی بھی منظوری دی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت چاہتی ہے کہ دیگر خلیجی ممالک سے بھی پاکستانی قیدوں کو وطن واپس لایا جائے اور اس ضمن میں دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس وقت بہترین سطح پر ہیں اور سعودی وزیرِ داخلہ کے آئندہ ماہ دورۂ اسلام آباد کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی مزید راہیں کھلیں گی۔

حکومت یقینی بنائے کہ قیدیوں کی فوری واپسی ہوسکے!

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے پبلک آؤٹ ریچ افسر محمد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ قیدیوں کی واپسی کے معاہدے کی حتمی منظوری خوش آئند ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حکومت قیدیوں کے معاملے کو سفارتی سطح پر سنجیدگی سے اٹھائے تو ثمرات مل سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ پاکستانی قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں ہے جو کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2500 سے زائد ہیں۔

محمد شعیب کہتے ہیں کہ کون سے قیدی واپس آسکیں گے اور کون سے نہیں یہ اس معاہدے کے مندرجات سامنے آنے کے بعد ہی بتایا جاسکے گا تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس معاہدے کے بعد سعودی عرب میں قید زیادہ تر پاکستانی واپس آسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے کی حتمی منظوری کے بعد پہلے اقدام کے طور پر حکومت کو چاہیے کہ قیدیوں اور ان کے اہلِ خانہ کو اس معاہدے سے آگاہ کرے اور ان کی واپسی کے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

محمد شعیب کے بقول ہقیدیوں کی واپسی کے عمل میں شفافیت کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں حکومت کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے اعلان کے بعد حکومت نے 579 قیدیوں کی واپسی کا دعویٰ کیا تھا جب کہ قیدیوں کے ناموں کی فہرست دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد اعلان سے پہلے ہی واپس آ چکی تھی۔

اس وقت 9227 پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں قید ہیں جن میں سے 2555 سعودی عرب اور 1918 متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں ہیں۔ ان قیدیوں میں درجنوں خواتین بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG