رسائی کے لنکس

تحریک انصاف کی ہاؤس فنانسنگ اسکیم پر آئی ایم ایف کی نظریں، سستے گھروں کا کیا ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے برسراقتدار آنے سے قبل ملک میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا مؤقف رہا ہے کہ نئے گھروں کی تعمیر سے نہ صرف معاشی سرگرمیاں پیدا ہوں گی بلکہ اس کے ساتھ عوام کو سستے گھر بھی میسر آ سکیں گے۔

اس مقصد کے لیے حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی تھی ۔ بعدازاں اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کو دیے جانے والے قرضوں کے حجم کا پانچ فی صد قرضہ دسمبر 2021 تک ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے کے لیے مختص کردیں۔

اس عرصے کے دوران بینکوں نے نئے گھروں کی تعمیر کے لئے 185 ارب روپے کے قرض کے لیے درخواستیں وصول کیں جن میں سے 72 ارب روپے کے قرضے منظور بھی کر لیے گئے۔

لیکن دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) نے حال ہی میں پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کے ساتھ اپنے رویو میں حکومت کو سفارش کی ہے کہ وہ ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں آسان شرائط پر قرضہ دینے کا سلسلہ بند کرے ۔

آئی ایم ایف کے خیال میں ہاؤس فنانسنگ کی مد میں قرضہ دینے سے معاشی عدم استحکام کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں اور اس ضمن میں قرضوں کے غلط استعمال کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کے اس رویو کے بعد یہ خدشات جنم لینے لگے ہیں کہ آئی ایم ایف حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے ہاؤسنگ فنانسنگ منصوبے کو بند کرنے کا خواہش مند ہے۔

'قرضوں کی فراہمی ممکن بنانا اسٹیٹ بینک کا کام نہیں'

ماہر معاشیات فہد رؤف کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک ریگولیٹر اور اس کا کام قوانین پر عمل درآمد کرانے کا ہے۔ مگر پاکستان میں ری فنانسنگ کا کام اسٹیٹ بینک ہی کرتا آیا ہے۔ تاہم اب آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ اسٹیٹ بینک آئندہ صرف ریگولیشن، افراط زر کا کنٹرول اور مونیٹری پالیسی بنانے کا ہی کام سر انجام دے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فہد رؤف نے کہاکہ آئی ایم ایف نے مختلف شعبوں کو قرضوں کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے الگ مالیاتی ادارے کے قیام کی تجویز دی ہےاور اس حوالے سے اصلاحات کے نفاذ پر بھی زور دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ دنیا بھر میں بینکس ہی مارگیج کے ذریعے بھاری رقوم گھروں کی خریداری اور تعمیرات میں دیتے ہیں لیکن پاکستان میں بینکس ایسا کرنے میں خدشات کا شکار ہوتے ہیں۔

فہد رؤف کے مطابق حکومت کی ایما پر اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو گھروں کی تعمیرات کے لیے قرضہ فراہم کرنا ضروری قرار دیا ہے جس کے بعد بینک قرض دینے پر مجبور ہیں۔ اگر بینکوں کو یہ اعتماد ہو کہ ان کا پیسہ باآسانی ریکور ہو جائے گا تو وہ اسٹیٹ بینک کی تاکید کے بغیر ہی اس مقصد کے لیے پیسہ جاری کریں گے۔

'حکومت کو آئی ایم ایف کی تجویز پر عمل کرنا ضروری نہیں'

معاشی میدان میں تحقیق کرنے والے ادارے 'عارف حبیب لمیٹڈ' سے منسلک ایک اور معاشی ماہر ثنا توفیق کہتی ہیں ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے ری فنانسنگ ختم کرنے سے متعلق آئی ایم ایف کی جانب سے صرف ایک تجویز سامنے آئی ہے اور حکومت کے لیے اس تجویز پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں۔

ان کے بقول ،"آئی ایم ایف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کرونا وبا کے دوران حکومت اور اسٹیٹ بینک نے معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے سے متعلق جو اقدامات کیے تھے وہ کافی بہتر تھے لیکن اب چوں کہ معاشی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال ہوچکی ہیں اس لیے اب حکومت کو آسان شرائط پر قرضہ دینے کی سہولت کو ختم کر دینا چاہیے۔"

واَس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اپنے ریو میں ہاؤسنگ قرضہ دینے کی سہولت ختم کرنے کی بات انتہائی مبہم انداز میں کہی ہے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ تعمیرات اور گھروں کے لیے جاری قرضوں کے حجم میں شاید کمی کی جائے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بینکوں کے لیے اسٹیٹ بینک کی جانب سے نئے گھروں کی تعمیر کے لیے رکھا گیا پانچ فی صد کا ٹارگٹ حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

'آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہمیشہ مہنگی ہی پڑتی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:47 0:00

دوسری جانب وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہاؤسنگ ری فنانس اسکیمز کو بند کردیا جائے بلکہ ان کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ڈیفالٹ ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسٹیٹ بینک پر نہ آئے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ڈویلپمنٹ فنانس بینک بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے ذریعے تمام ری فنانس ہوگا۔ اس عمل سے ہاؤسنگ ری فنانس اسکیم یا دیگر ری فنانسنگ کا صرف مکینزم تبدیل ہوگا۔

معاشی ماہر ثنا توفیق کے خیال میں کم مالیت کے گھروں کے لیے جس انکم گروپ کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، عام طور پر ان کی آمدنی اس قدر نہیں کہ وہ اس میں سے کوئی بچت کریں اور پھر بینکوں سے قرض حاصل کرنے کے بعد قسطیں باآسانی ادا کرسکیں۔ اس لیے ایسے افراد خواہش کے باوجود بھی نئے گھر کی خریداری کے لیے قرض حاصل نہیں کرپاتے۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی ہاوؑس فنانسنگ اسکیم کا دائرہ کار کم اور شرائط سخت ہیں جس کی وجہ سے لوگ نئے گھروں کے لیے قرضہ حاصل کرنے سے کترارہے ہیں۔

کیا کنسٹرکشن انڈسٹری کے چلنے سے ملک ترقی کرتا ہے؟

امریکہ کی پرنسٹن یونی ورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر عاطف میاں کا خیال ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے بگڑے ہوئے توازن میں ہاؤسنگ کے لیے بھاری قرض جاری کرنے کاخیال زیادہ بہتر نہیں۔کیوں کہ ان کے بقول اس سے برآمدات میں کوئی اضافہ نہ ہونے کے باوجود بھی ملکی درآمدات ضرور بڑھیں گی۔

عاطف میاں کے خیال میں ہاؤسنگ کا شعبہ سب سے کم پیداواری صلاحیت کا حامل شعبہ ہے جس پر توجہ دینے سے زیادہ پیداوار دینے والے دیگر شعبے نظر انداز ہوجاتے ہیں۔

تاہم ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہاؤسنگ اور کنسٹرکشن سے کئی دیگر شعبے بھی وابستہ ہوتے ہیں جس میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں شامل سیمنٹ انڈسٹری اور اسٹیل انڈسٹری بھی شامل ہیں۔ لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ان اشیا کی پیداواری قیمت بین الاقوامی طور پر بہت بڑھی ہوئی ہے ۔

ثنا توفیق کہتی ہیں جب بھی معیشت کو ترقی دینے کی بات کی جاتی ہے تو اس میں بنیادی کام ہی انفرااسٹرکچر کی تعمیرات کا آتا ہے جس سے معاشی پہیہ چلتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG