پاکستان کی نئی حکومت کو سیاسی چیلنجز کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر اور دوست ممالک کی جانب سے تاحال کوئی بھی یقین دہانی نہ ہونے پر ماہرین کے مطابق پاکستان کے اقتصادی بحران میں شدت آ سکتی ہے۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کے خیال میں حکومت کو اقتصادی محاذ پر سخت اور فوری فیصلے کرنے ہیں لیکن بظاہر اتحادی حکومت کٹھن اقتصادی فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور اُن کی اتحادیوں پر مشتمل کابینہ کے لیے بڑھتے ہوئے تجارتی اور مالیاتی خسارے کو کنٹرول کر کے معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنا، سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
نو منتخب وزیراعظم نے ان سخت حالات میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت سے مالی معاونت چاہی تھی۔ لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق دوست ممالک نے بھی معاشی مدد کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی سے مشروط کیا ہے۔
پاکستان کے روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 190 روپے تک جا پہنچی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس موجودغیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر صرف 10 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو صرف دو ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
اس صورت حال میں پاکستان کو اپنی بیرونی ادائیگیوں اور ماہرین کے بقول ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے فوری طور پر عالمی مالیاتی ادارے ' آئی ایم ایف ' کے پروگرام کو بحال کرنا ضروری ہے۔
مشکل اقتصادی فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں؟
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات سلمان شاہ کہتے ہیں پاکستان کو اس وقت ایک ہنگامی صورت حال کاسامنا ہے ۔ لیکن ان کے بقول معیشت کے استحکام کے لیے ضروری اورمشکل فیصلوں میں سیاسی مصلحتوں کے سبب تاخیر ہو رہی ہے۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اہم مالیاتی فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی تجاویز کے مطابق تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے ۔
ان کے بقول اگر بروقت فیصلے نہ کیے گئے تو پاکستان کو اپنے تجارتی اور مالی خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں مشکل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ماہ کے بعد پاکستان کو 20ارب ڈالرز درکار ہوں گے جو محض آئی ایم ایف سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور آئی ایم ایف کے عہدیداروں کے درمیان گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے چھ ارب ڈالر کی مالیت کے پروگرام میں آئند سال کے لیے مزید دو ارب اضافہ کرنے کا عندیہ تھا۔ لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پاکستان کو تیل اور بجلی کی قیمتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور بجٹ خسارہ کم کرنا پڑے گا۔
ماہرین کے مطابق سخت اقتصادی فیصلے کرنے کے لیے حکومت کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے لیکن دوسری جانب ملک میں سیاسی استحکام بھی نہیں ہے اور موجودہ حکومت اب تک اس بات کا تعین نہیں کر پائی ہے کہ انہیں کتنے عرصے اقتدار میں رہنے کے بعد الیکشن کروانے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہی تذبذب سرمایہ کاروں، دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لیے بھی فیصلے کرنے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے مارچ میں تیل کی قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان کیا اور موجودہ حکومت نے بھی اب تک سبسڈی ختم نہیں کی ہے۔
اقتصادی امور کے ماہر فرح سلیم کہتے ہیں کہ تیل اور بعض اشیا پر دی جانے والے سبسڈی ختم کرنے کے لیے حکومت کو ایک بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
اُن کے بقول روس یوکرین جنگ کے بعد سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا درآمدی بل بڑھ رہا ہے۔
'پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگز ہے'
ماہرین کے مطابق سخت اقتصادی فیصلے کرنے میں حکومت مخمصے کا شکار نظر آتی ہے ۔ اگر شہباز شریف کی اتحادی حکومت آئندہ سال ہونے والے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی طور پر مقبول اقتصادی فیصلے کر سکتی ہے لیکن دوسری جانب معیشت کو بہتر کرنے کے لیے حکومت کو مشکل اور غیر مقبول معاشی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بصورتِ دیگر پاکستان کو سری لنکا جیسی صورتِ حال درپیش ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ کرونا وبا کے باعث معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ سے سری لنکا کے پاس ایندھن اور خوراک سمیت دیگر درآمدی اشیا کی ادائیگی کے لیےزرمبادلہ کی شدید قلت ہے۔ملک میں پرتشدد مظاہروں کے باعث وزیرِ اعظم مستعفی ہو چکے ہیں جب کہ حکومتی وزرا کی رہائش گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ جب تک حکومت پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھاتی یا کم ازکم انہیں خطے کے دیگر ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کی سطح پر نہیں لاتی اس وقت تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت رعایتی نرخوں پر تیل کی فروخت کرنے کی سہولت ختم کردیتی ہے تو فوری طور عام لوگوں پر اس کا بوجھ پڑے گا لیکن ان کے بقول یہ مشکل فیصلہ کرنے سے ہم سری لنکا جیسی صورتِ حال سے بچ سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان حکومت کے خلاف ایک عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ بھی ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور سرمایہ کار غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
'سعودی عرب اور دوست ممالک سے مدد کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے'
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کوآئندہ چند ہفتوں میں آٹھ سے نو ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ فوری طور پر بعض بیرونی قرضوں کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ لیکن ان کے بقول اس کے لیے نہ صر ف عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام پوری طرح بحال ہونا ضروری ہے بلکہ اس کے بعد سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک سے ملنے والی مالی معاونت بھی پاکستان کے لیے نہایت اہم ہو گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے گزشتہ ماہ کے اواخر میں ہونے والے سعودی عرب کے دورے کے بعد ریاض نے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی خریداری کے لیے دی جانے والی سہولت میں توسیع اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے فراہم کردہ تین ار ب ڈالر کی مالی معاونت کی مدت میں بھی توسیع کا اشارہ دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کو یہ بھی توقع ہے کہ شاید چین بھی پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات حل کرنے کے کوئی مالی امداد فراہم کرے۔
لیکن فرح سلیم کہتے ہیں ان کی معلومات کے مطابق چین بھی اس بات کے حق میں ہے کہ پاکستان اپنے کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارے سے نمٹنے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرے ۔
فرح سلیم کہتے ہیں کہ چین تجارتی اور مالیاتی خسارے کے لیے کسی بھی ملک کی مالی امداد نہیں کرتا لیکن وہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے اسٹیٹ بینک میں رقم رکھوا سکتا ہے۔