پاکستان بحریہ کی جانب سے شمالی بحیرہٴ عرب میں چار روز تک جاری رہنے والی مشقیں’امن 2017‘ نے پاکستان کو دیگر چھتیس ممالک کے قریب کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان مشقوں میں بڑی تعداد میں دنیا بھر کی بحری افواج کی شرکت پاکستان پر اعتماد کا اظہار ہے۔
نواز شریف مشقوں کے مشاہدے کے لئے خصوصی طور پر اسلام آباد سے کراچی پہنچے۔ وہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ پاکستان کی بحری فوج کے زہر استعمال جہاز ’نصر‘ پر ان کا استقبال پاک بحریہ کے سربراہ نیول اسٹاف ایڈمرل محمد ذکا اللہ نے کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف، سیکریٹری دفاع، گورنر سندھ محمد زبیر، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، چیف آف دی ائیر اسٹاف، سری لنکا کی بحریہ کے سربراہ، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی، مختلف ممالک کے سفیر، کونسل جنرلز، سفارت کاروں اور دیگر اعلیٰ سطح کے سول و فوجی عہدیداروں نے بھی ان مشقوں کا مشاہدہ کیا؛ اور اس حوالے سے ہونے والی تقریب میں بھی شرکت کی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو بحر ہند میں قزاقی، انسانی اسمگلنگ اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان سے نمٹنے کیلئے مؤثر حکمتِ عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بحیرہٴ عرب پورے خطے کی ترقی کا محور ہے، سی پیک پاکستان سمیت پورے خطے کیلئے انتہائی اہم ہے۔ سمندری راستوں پر تجارت کے فروغ کے لئے امن ضروری ہے۔ مستقبل میں سمندری راستوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسی غرض سے امن مشقوں کا انعقاد عمل میں لایا گیا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی سمندری سرحدیں سات سو کلومیٹر طویل ہیں۔ اس قدر طویل سرحدوں کی حفاظت یقیناً بہت محتاط رہنے کی متقاضی ہے۔ خاص کر ایسی صورتحال میں جبکہ امن کو دہشت گردی سے سخت خطرہ لاحق ہو۔
پاکستان نے سمندری حدود کو محفوظ بنانے کے لئے ہی دوست ملکوں کے اشتراک سے رواں ہفتے’امن 2017ء‘ کے نام سے مشقوں کا انعقاد ممکن بنایا جبکہ اس نوعیت کی بحری مشقوں کا آغاز پاکستان نے پہلی مرتبہ مارچ سن 2007 میں کیا تھا۔ اس کی کامیابی اور مفید نتیجہ خیزی کے سبب ہی مشقوں کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
وزیر اعظم کو ’امن 2017‘ کے نام سے ہونے والی مشقوں اور مختلف سمندری سرگرمیوں سے متعلق مکمل اور تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
مشقوں کے مشاہدے پر وزیراعظم میاں نواز شریف پر مسرت نظر آئے۔ انہوں نے بحری جہازوں کو مشقوں میں حصہ لیتے دیکھا، جہازوں میں حربی سامان کی منتقلی، ہیلی کاپٹرز، پاکستان ائیرفورس کے لڑاکا طیارے اور ایئرکرافٹس، زمین سے زمین تک اپنے ہدف کو نشانہ بناتے راکٹ دیکھے۔ پاکستان بحریہ کے ائیرکرافٹس اور ہیلی کاپٹرز نے وزیراعظم کی موجودگی میں فلائی پاسٹ کیا۔
وزیر اعظم نے مشقوں میں شامل دیگر ممالک کے جہازوں کا بھی مشاہدہ کیا اور فضائی سلامی کی تعریف کی۔
نواز شریف نے مشقوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے مشقوں کے کامیاب انعقاد پر پاکستان نیوی کی کوششوں کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں غیر ملکی بحری افواج کی مشقوں میں شرکت پاکستان پر اعتماد کے اظہار کی عکاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بحریہ سمندری دفاع میں کسی سے پیچھے نہیں اور دفاع وطن کے لئے ہر ممکن طور پر تیار ہے۔
ان مشقوں میں پاکستان سمیت دنیا کے 37 ممالک نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر یہ مشقیں دو مراحل میں مکمل ہوئیں۔ ایک مرحلے میں بین الاقوامی میری ٹائم کانفرنس، سیمینار، مذاکرات، بحری جہازوں کی نمائش اور آبی وسائل، انسداد دہشت گردی کا مظاہرہ پیش کیا گیا، جبکہ دوسرے مرحلے میں جہازوں کی صلاحیتوں کو مشقوں کے ذریعے نمایاں کیا گیا۔
ماضی کی مشقیں: پہلی مشترکہ مشق ’امن۔07‘ کے نام سے مارچ 2007میں ہوئی تھی جس میں پاکستان سمیت 28 دوست ملکوں نے شرکت کی۔ اس میں چین، برطانیہ، اٹلی، فرانس، ملائیشیا اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے۔ مشقوں میں 14بحری جنگی جہازوں نے حصہ لیا جبکہ ترکی اور امریکہ کی ٹیموں نے اسپیشل آپریشنز کی مشقوں میں حصہ لیا۔ 21ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔
اس کے بعد دوہزار نو، دو ہزار گیارہ اور دو ہزار تیرہ میں بھی مشقوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان مشقوں کا مقصد علاقائی استحکام و امن کے قیام میں پاکستان کے کردار کی صلاحیت میں اضافہ اور بحرہند کے خطے میں سمندری ٹریفک کو پرامن اور رواں دواں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا، جس میں پاکستان خطے کے دوست ممالک کو بھی شامل کر رہا ہے۔
ان ممالک میں آسٹریلیا، چین، انڈونیشیا، ترکی، سری لنکا، برطانیہ، امریکہ، جاپان، روس، ملائشیا، مالدیپ اور خود پاکستان شامل ہے۔ مشقوں کا ایک اور بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان دوست ممالک کے اشتراک سے اپنی بحریہ کو دہشت گردی کی بیخ کنی کی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکے۔
مشقوں میں چین اور روس کے تین، تین جبکہ دیگر ممالک کے 8 آٹھ بحری جہازوں اور 5 ممالک کے مختلف ہیلی کاپٹرز نے مشقوں میں حصہ لیا۔