انڈونیشیا نے اپنے ہاں قید پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عملدرآمد عین وقت پر روک دیا ہے۔
منشیات رکھنے کے جرم میں ذوالفقار علی کو یہ سزا تقریباً 12 سال قبل سنائی گئی تھی جس پر جمعہ کو علی الصبح عملدرآمد ہونا تھا۔
ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عمل درآمد کو روکنے کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد لاہور میں اُن کے گھر کے باہر کافی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اور انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر عقیل ندیم نے جمعہ کو تصدیق کہ ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بتایا کہ ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عملدرآمد روکے جانے کے انتہائی کم امکانات کے باجود ان کے والد کی طرف سے انڈونیشیا کے عہدیداروں سے کی گئی درخواست کامیاب ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ ذوالفقار علی کی اہلیہ اور والد بھی انڈونیشیا ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے مطابق اس معاملے میں انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانے نے بہت متحرک کردار ادا کیا ہے۔
ذوالفقار علی 2004ء سے گرفتار ہیں اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے کی گئی اپیلوں کے باوجود دیگر 13 مجرمان سمیت ان کی سزا پر جمعہ کو عملدرآمد ہونا تھا۔
جمعہ کو حکام نے ان میں سے چار کی سزا پر مجرموں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے عملدرآمد کر دیا۔
لیکن باقی دس کی سزاؤں پر عملدرآمد نہ کرنے کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے ذوالفقار علی کی سزا پر عملدرآمد رکوانے کے لیے سفارتی سطح پر بھی کوششیں کی جاتی رہیں اور جمعرات کو دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بتایا تھا کہ یہ کوششیں آخری وقت تک جاری رہیں گی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کس بنیاد پر ذوالفقار کی سزا پر عمل درآمد کو روکا گیا ہے اور اس کے بعد ہی اس سلسلے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔