رسائی کے لنکس

یورپ کی اکثریت مزید مسلمانوں کی آمد نہیں چاہتی


یورپ میں مسلم تارکین وطن کے خلاف مظاہرے میں ایک خاتون مسلم مخالف بینر اٹھائے ہوئے ہے۔ فائل فوٹو
یورپ میں مسلم تارکین وطن کے خلاف مظاہرے میں ایک خاتون مسلم مخالف بینر اٹھائے ہوئے ہے۔ فائل فوٹو

یورپ کے دس ملکوں میں کرائے گئے اس سروے میں اوسطاً 55 فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ اکثریتی مسلم ممالک سے مزید تارکین وطن کو روک دیا جائے۔

یورپی باشندوں کی اکثریت مسلم اکثریتی ملکوں سے مزید تارکین وطن قبول کرنے کے خلاف ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخطوں سے عارضی سفری پابندیوں کا حکم جاری ہونے سے پہلے یورپ میں کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں می، خاص طور پر اسلامی ملکوں سے آنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے بارے میں بہت بے اطمینانی اور شکوک و شہبات پائے جاتے ہیں۔

ایک برطانوی تھنک ٹینک چیتھم کے تجزیہ کار وں کا کہنا ہے مسلمان تارکین وطن کے خلاف سب سے شدید جذبات ریٹائرڈ اور بڑی عمر کے لوگوں میں دیکھے گئے جب کہ 30 سال یا اس سے کم عمر کے افراد میں مخالفت کی سطح کم تھی۔

تارکین وطن کی تعلیمی استعداد کے حوالے سے لوگوں کی رائے منقسم تھی۔ 59 فی صد افراد نے ہائی اسکول کے تعلیم یافتہ مسلم تارکین وطن کو ملک میں آنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی ۔ جب کہ گریجوایٹ مسلمانوں کی مخالفت کرنے والوں کی شرح 50 فی صد سے کم تھی۔

یورپ کے شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد مسلمان تارکین وطن کو داخلے کی اجازت دینے کے زیادہ مخالف تھے۔

اسی طرح جائزے میں اپنی رائے دینے والوں میں عمر، تعلیم ، اور علاقے کے لحاظ سے بھی فرق نظر آیا۔

یورپ کے دس ملکوں میں کرائے گئے اس سروے میں اوسطاً 55 فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ اکثریتی مسلم ممالک سے مزید تارکین وطن کو روک دیا جائے۔

25 فی صد رائے دہندگان نے تارکین وطن کی مخالفت کی اور نہ ہی انہیں قبول کرنے کی حمایت کی۔ جب کہ 20 فی صد نے مسلمانوں کی آمد پر پابندی کے خلاف رائے دی۔

سروے میں شامل 10 ملکوں میں دو کے سوا تمام ملکوں کی اکثریت نے مسلمانوں کی آمد کی مخالفت کی جس کی شرح اس طرح ہے۔ پولینڈ 71 فی صد، آسٹریلیا 65 فی صد، جرمنی 53 فی صد، اٹلی 51 فی صد، برطانیہ 47 فی صد اور اسپین 41 فی صد۔

کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر پابندی کی مخالفت کرنے والوں کی شرح 32 فی صد سے زیادہ نہیں تھی۔

جن ملکوں میں سروے کیا گیا تھا ، ان میں پولینڈ کے سوا ، کسی بھی ملک کو کبھی بھی پناہ گزینوں سے منسلک بحران یا دہشت گرد حملے کا سامنا نہیں ہوا ۔

تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے اسکالر میتھیو گڈون اور ٹامس رینز اور برمنگھم یونیورسٹی کے تجزیہ کار ڈیوڈ کٹس کہتے ہیں کہ جائزے کے نتائج یہ دکھاتے ہیں کہ یورپ میں دائیں بازو کی امیگریشن مخالف جماعتوں کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے۔

چیتھم ہاؤس کا کہنا ہے کہ سروے کے نتائج ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب مرکزی سیاست دان اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔

جرمنی، فرانس، نیدر لینڈز اور ممکنہ طور پر اٹلی میں 2017 میں انتخابات ہو سکتے ہیں اور ان تمام ملکوں میں انتہائی دائیں بازوں کی جماعتیں زمینی کامیابیاں حاصل کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپ کے انتخابات میں بھی وہی غیر متوقع نتائج آ سکتے ہیں، جو امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کی شکل میں نکلے ہیں۔

تجزیہ کار جان لائیڈ کہتے ہیں اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا مسلم اکثریتی ملکوں سے امیگریشن پر پابندی کی حمایت قوم پر ست جماعتوں کے لیے فتح یابی کا دروازہ کھول سکتی ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کے دس یورپی ملکوں کے سروے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کے عوام کی اکثریت اپنے ملکوں میں مسلمانوں کے رہنے کے حق میں نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG